دل غم کا طلب گار ہے معلوم نہیں کیوں

دل غم کا طلب گار ہے معلوم نہیں کیوں
راحت سے یہ بیزار ہے معلوم نہیں کیوں


حق یہ ہے کہ ہم دونوں محبت میں بندھے ہیں
لیکن اسے انکار ہے معلوم نہیں کیوں


جو معتبر تھا اہل زمانہ کی نظر میں
رسوا سر بازار ہے معلوم نہیں کیوں


میں بھولنا چاہوں بھی بھلا پاؤں نہ ان کو
کچھ ایسا سروکار ہے معلوم نہیں کیوں


جو بھی ہو غلط بات جھٹک دیتا ہے اکثر
اس درجہ وہ خوددار ہے معلوم نہیں کیوں


انسان کسی بات پہ رہتا نہیں قائم
یہ ذہن سے بیمار ہے معلوم نہیں کیوں


خاموش سی رہتی ہے زباں اس کی برابر
دل مائل گفتار ہے معلوم نہیں کیوں


قربت بھی کسی کی نہیں ہے راس کرنؔ کو
یہ خود سے ہی بیزار ہے معلوم نہیں کیوں