دھیرے دھیرے قبر کے اندر تلک پہنچائے گی
دھیرے دھیرے قبر کے اندر تلک پہنچائے گی
ایک دن مجھ کو مری یہ حسرتیں کھا جائیں گی
بول کالر چھوڑ دیں میرے چراغوں کی اے رات
ورنہ جو پاگل ہوائیں ہیں تری پچھتائیں گی
آؤ اپنے مسئلوں کو خود ہی سلجھاتے ہیں ہم
یہ سیاسی پارٹیاں اور ہمیں الجھائیں گی
بیٹیوں کو سانس لینے دو کھلے ماحول میں
ورنہ یہ بیچاریاں گھٹ گھٹ کے ہی مر جائیں گی
زندگانی سے ہیں جو شکوے گلے مٹ جائیں گے
رحمتیں اللہ کی جب نور سے نہلائیں گی
اپنی خودداری کو بھی نیلام میں نے کر دیا
مجھ سے یہ مجبوریاں اب اور کیا کروائیں گی