دیوتا کی مسکراہٹ


چند بے ہنگم سیٹیوں اور مشینی گڑگڑاہٹ کے ساتھ جہاز نے ساحل کو خیرباد کہا۔ اس کے عظیم الجثہ دانت سمندر کا سینہ چیرنے لگے جیسے وہ کوئی بڑا موٹا مہاجن ہے جو اب اپنے غریب قرضدار کا سارا لہو پئے بغیر چین نہیں لے گا۔ بڑی بڑی موجیں اس کے قدموں سے لپٹیں گویا اسے اس بے رحمی اور ستمگری سے روک رہی ہیں، مگر اس کا غصہ بڑھتا ہی جاتا اور اس کے آہنی کناروں سے بری طرح کف نکلنے لگتے۔ ساحل کی دوری کے ساتھ ساتھ بمبئی کے مناظر آنکھوں سے اوجھل ہو رہے تھے اور جہاز کا کپتان شانِ بے نیازی کے ساتھ سوچ رہا تھا، یہ چھوٹی سی دنیا اب میرے قبضے میں ہے۔

اس ساری مخلوق کا میں ہی خدا ہوں، چاہے انھیں جلاؤں، چاہے موت کی آغوش میں سلادوں، اور میرے مقابلے میں وہ نکوباری خلاصی ہے جسے دنیا میں کہیں ٹھکانا نہیں۔ انٹر پاس کرکے بھی اسے اس سے بہتر نوکری نہیں مل سکتی۔ اس کا رزق کس قدر مجبور، اور عزت سے عاری ہے! اسے دنیا میں کوئی اعزاز حاصل نہیں۔ لوگ اس کی طر ف امید اور التجا بھری نظروں سے کبھی نہیں دیکھتے۔ کوئی بھی تو ایسا شخص نہیں جو اس کے سہارے جی رہاہو۔۔۔ اور ایک میں ہوں، ذرا سمندر میں طوفان آجائے، جہاز کی کوئی کل ہی بگڑ جائے، اور پھر یہ ساری مخلوق، یہ تمام آبادی مجھ سے سلامتی مانگے گی۔ میری خیر منائے گی کہ میں ہی ان کی بگڑی بنانے والا ہوں، میں ہی انھیں مصیبت سے نجات دلاؤں گا۔

اور جہاز کے مسافر، سر پھرے کپتان کے ہوائی قلعوں سے بے خبر، دنیا کے بے ترتیب نظام سے لاپروا، اپنی اپنی دھن میں محو تھے۔ بعض لوگوں کی نظروں میں اس جہاز کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ آخر یہ اسٹیمر ہی تو تھا جس کے ذمہ بمبئی کے سیلانیوں کو آس پاس کے جزیروں میں لے جانے اور لانے کی خدمت سپرد تھی اور بس۔۔۔ انھوں نے اس سے بڑے بڑے اسٹیمروں بلکہ جہازوں میں سفر کیا تھا جن کے مقابلے میں اس کی حیثیت کھلونے کی تھی۔ البتہ بعض مسافر اس جہاز کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، اور ان لوگوں میں زیادہ تعداد دفتر کے بابوؤں کی تھی۔ انھیں یہ ایک عجوبہ سامعلوم ہوا اور اس کی نقل و حرکت سے ان کے دماغ میں تحریک ہونے لگی۔

انھیں اپنا پچھلا زمانہ یاد آیا جب وہ تعلیم پاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ بی اے کرکے آئی سی ایس کریں گے، اور ٹریننگ کے لیے ولایت جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ افسری کے بجائے انھیں کلرکی ملی اور اب وہ اس گورے ملکوں کو جانے والے دیونما جہاز کے بدلے صرف ایک چھوٹے سے اسٹیمر میں ایلی فینٹا کی سیر کرنے جارہے تھے۔ انھیں اسی میں لذت محسوس ہوئی اور کچھ دیر کے لیے وہ دنیا اور آلامِ حیات کو بھول گیے۔ سمندر کی ہوا نے ان پر سرور اور خودفراموشی طاری کردی اور وہ چند لمحات کے لیے اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہوئے خیال کرنے لگے کہ ہم سچ مچ ولایت جارہے ہیں اور یہ جہاز ہمیں ہندوستان کی کالی سرزمین سے پاک صاف کرکے ایسی جگہ لے جارہا ہے جہاں سے واپس آکر ہم یہاں کے کالے لوگوں پر حکومت کریں گے۔۔۔ مگر ایکا ایکی کپتان کی خودپرستی نے انھیں جگادیا۔ ایک بھدی سی گراں گوش سیٹی سے وہ چونک پڑے، خیالی اطمینان رخصت ہوگیا اور وہ پھر وہیں کے وہیں!

جہاز کی بالائی منزل میں کلرکوں کی ایک ٹولی، جیل خانے کے قیدیوں کی طرح، اتوار کی چھٹی کا زیادہ سے زیادہ لطف اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ دو صاحب، جن کا حلیہ، سوشلسٹی ترقی پسند ادیبوں سے ملتا جلتا تھا، فلمی گانے گا رہے تھے اور اس طرح کہ ان کی دھنوں میں ترمیم و تنسیخ کا فرض بھی بحسن و خوبی ادا ہو رہاتھا۔ ایک بابو، جنھیں موسیقی سے کوئی مناسبت نہیں تھی، پکے گانے سے شوق فرمارہے تھے۔ باقی احباب عرشے کی جانب منہ کیے، جہاں ایک سیاح لڑکی خاموش کھڑی سمندر کی نیرنگیوں کا تماشہ دیکھ رہی تھی، تکنے اور قہقہوں میں مصروف تھے۔ ان کی گفتگو کا موضوع یہی لڑکی تھی جسے دیکھ دیکھ کر ان کی باتوں میں جان اور جان میں اعادۂ شباب ہو رہاتھا۔ چنانچہ ان کی آواز میں تصنّع اور الفاظ میں بازاری پن پیدا ہوگیا۔ اور گاہے گاہے وہ بلند آواز سے فقرے بھی کسنے لگے۔

ان کا خیال تھا کہ لڑکی ان کی بیہودہ گوئی اور بے ہنگام قہقہوں سے خوش ہو رہی ہے بلکہ کیا خبر وہ ان سب پر عاشق ہوجائے۔ اور ان لوگوں کو لذّت خیال میں سرپٹ دوڑنے سے روکنے والا صرف ایک شخص تھا۔ جین، جس کے متعلق سب کو معلوم تھا کہ وہ طبیعت کا شرمیلا اور عورت کے معاملے میں پارسا ہے۔ لیکن اس کے ٹوکنے پر حبیب، جو چھیڑخانی میں پیش پیش تھا، بگڑ گیا اور جھلاکر بولا،’’تم مجھے اس لیے روکتے ہو کہ خود تم میں جرأت نہیں۔۔۔ تم ڈرپوک ہو۔۔۔‘‘ سکندر نے فوراً موقع شناسی سے کام لیا اور آگے بڑھ کر بیچ بچاؤ کردیا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔

سمندری لہروں کی مدھم رفتار نے اختتامِ سفر کا پیغام پہنچایا اور جزیرہ ایلی فینٹا کی جھلکیاں آہستہ آہستہ نظر آنے لگیں۔ ساحلی میدان میں سرسبز اور شاداب درخت قطار درقطار کھڑے سر سرارہے تھے اور ان کے پیچھے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں سربلند کیے سرگوشی میں کہہ رہی تھیں، ’’اے مسافر آؤ، بہ سر و چشم آؤ۔ ہماری آغوش میں ایک جوہر نایاب ہے، اسے پرکھو، اس کی جوت دیکھو اور اس کے متعلق اپنے تاثرات دور دور تک پھیلادو۔ یہاں گہما گہمی نہیں۔ شہر کی رونق نہیں۔ بستی کی چہل پہل نہیں، بازاروں کی لہر بھر نہیں۔ بس سکون ہے، ابدی سکون، جسے رشی اور سادھوؤں کی سالہا سال کی ریاضت نے حاصل کیا تھا اور جسے وہ نسلاً بعد نسل تمہارے لیے ورثہ چھوڑ گیےہیں۔ آؤ۔ بے خوف چلے آؤ۔۔۔ ان غاروں میں دیدہ دل وا کرنے والے کو قلبی اطمینان سے مالا مال کردیا جائے گا۔ یہ ایلی فینٹا ہے!‘‘

آخر کار دو گھنٹے کی مسافت کے بعد ساڑھے دس بجے کے قریب جہاز لنگر انداز ہوا اور کشتیاں باری باری مسافروں کو جہاز سے اتار کر کناروں پر پہنچانے لگیں۔ ملاحوں نے اعلان کیا کہ جہاز مسافروں کو واپس لے جانےکے لیے شام کے چھ بجے پھر آئے گا۔ سب وقت پر پہنچ جائیں ورنہ دوسرے دن تک یہیں رکنا پڑے گا۔

لوگوں نے کچھ سنا کچھ نہیں سنا۔ ایک افراتفری مچی ہوئی تھی۔ جہاز خالی کیا جارہا تھا، خلاصی اور کشتی بان مسافروں کو سہارا دے کر جلدی جلدی اتار رہے تھے۔ اسی بھاگم دوڑ میں اس سیاح لڑکی کا نمبر آیا اور وہ بچتی بچاتی جہاز کے دروازے پر آئی۔ ایک بدصورت مگر قوی ہیکل کشتی بان نے اس کو سہارا دیا۔ لیکن ہندوستانی اپنی روایتی بے ترتیبی سے اس بری طرح ایک دوسرے کو دھکا دے رہے تھے کہ اس لڑکی کا پاؤں پھسل گیا اور معادہ کشتی بان کی گود میں آن پڑی۔ کلرکوں کی ٹولی میں گویا کسی نے شرارہ پھینک دیا اور ان کے دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ کاش ہم بدصورت مگر قوی ہیکل کشتی بان ہوتے تو یہ سعادت ہم کو نصیب ہوتی۔

(۲)

کشتیوں سے اترکر چٹانوں اور پہاڑیوں پر چڑھائی ہوتی رہی۔ ہر آگے بڑھتا ہوا قدم سمندری نشیب سے سطح مرتفع کی جانب لیے جارہا تھا۔ کہیں سانپ کی مانند بل کھاتے ہوئے ناہموار راستے تھے اور کہیں گھنی جھاڑیوں سے گھری ہوئی تنگ پگڈنڈیاں۔ کبھی کبھی دوچار فرلانگ کے فاصلے پر پہاڑی قبیلوں کی عورتیں اور بچے ایلی فینٹا کی مخصوص ٹیڑھی میڑھی اور چکنی لکڑیاں بیچتے ہوئے مل جاتے تھے۔ لوگ ان لکڑیوں کو از راہِ تفنن خریدتے، انھیں نکیلے پتھروں پر پٹختے اور طرح طرح کی آوازیں نکالتے چلے جاتے تھے۔ ان کی حرکتوں سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آج کے دن وہ اپنی عمروں کو بھول گیے ہیں بلکہ ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ ان کی یہ بے فکری اور خوش باشی عارضی ہے، کل پھر پیر ہوگا، اور وہی دفتر کی، امنگوں کو کچل دینے والی، بیزار کن فضا۔

کلرکوں کا قافلہ یوں ہی شرارتیں کرتا، سیٹیاں بجاتا اور مختلف نعروں کی نقلیں اتارتا چڑھائی طے کر رہا تھا۔ جنگلی شہتوت کے سامنے سے جہاں دو راستے اس طرح آکر ملتے تھے جیسے زاویہ بنانے والے دو خطوط، جہاز کے ہم سفروں کی ایک اور ٹولی آتی نظر پڑی اور پیچھے پیچھے وہی پارسی سیاح لڑکی! نیلی پتلون اور شربتی قمیص پہنے ہوئے۔ بوٹ قدرے مردانہ وضع کے، بال کترےہوئے، رنگ صندلی، چہرہ دلکش، خدوخال ذہانت اور علمیت کے پیامی۔

جین نے اس کا سراپا نظر بھر کر دیکھا۔ اس کی حسین صورت اسے بے حد بھلی معلوم ہوئی اور اس نے اپنے دل میں سوچا کہ نسوانیت کی تمام رعنائیاں ان نقوش میں سمٹ آئی ہیں۔ اس کے رخساروں کے اجلے پن نے اسے یوکلپٹس کے تنے کا بیرونی رخ یاد دلایا جسے دیکھ کر نورسحر کا گمان ہوتا ہے، اور اس کے لب اسے ایسے معلوم ہوئے جیسے کسی نے کاشمیری سیب کی دو پتلی پتلی خوبصورت قاشیں نفاست اور نزاکت سے تراش کر پاس پاس رکھ دی ہیں۔ پھر اس کی نگاہ اس کے سینے پر گئی اور ایک لمحے کے لیے وہ ذرا مایوس سا ہوگیا، کیونکہ وہاں اس نے وہ بلوریں آبگینے نہیں دیکھے جنہیں دوشیزگی اور شاب و جمال کا خزینہ کہا جاتا ہے، لیکن فوراً ہی وہ اس کی مستی سے لبریز چال کو دیکھ کر اس کے سپاٹ حصہ جسم کو بھول گیا اور اس کے دل میں آئی، کاش یہ ایک دفعہ میرے قبضے میں آجائے۔۔۔ مجھے اس پر تصرف حاصل ہوجائے۔ میں اسے اپنی آغوش میں لے لوں اور اس قدر بھینچوں کہ یہ چند لمحات کے لیے بالکل مجھ میں سماجائے۔۔۔ وہ یوں ہی اپنی حریص نظروں سے اس کا حسن میلا کیے جارہا تھا کہ معروف نے اسے ٹہوکا دیا، ’’کیا گھور رہے ہو؟‘‘ اور جین شرما گیا۔ چھوئی موئی کی طرح گویا خود اپنے میں سمٹنے لگا۔ وہ کبھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اسے یوں چوری کرتے ہوئے پکڑلے۔ وہ سوچنے لگا، یہ معروف اپنے دل میں کیا کہتا ہوگا، یہ تو سمجھتا ہے کہ میں عورت کو دیکھنا حرام سمجھتا ہوں۔

دو گھنٹے کے بحری سفر کی مانند، پون گھنٹے کی بری اور پہاڑی مسافت بھی آخر ختم ہوگئی۔ اب راستہ ہموار ہوگیا تھا اور صاف ستھری سڑک کے دونوں جانب سایہ دار درخت کھڑے ہوئے تھے۔ منزل مقصود پر پہنچ کر سب نےذرا کی ذرا دم لیا اور سیلانی درختوں کی طرح انھوں نے چاروں طرف ایک نگاہِ غلط انداز ڈالی۔ سامنے دور دور تک پھیلی ہوئی پہاڑیاں اور ان کے آگے بحر ناپیدا کنار موجیں مار رہا تھا اور پشت کی جانب وہ وسیع و عجیب بت گاہیں تھیں جو غار ہائے ایلی فینٹا کے نام سے مشہور ہیں۔ لوگ باگ دروازے پر سرکاری نذرانہ دے کر اپنی اپنی ٹکڑیوں کے ساتھ اندر داخل ہوگیے۔ پہلے وہ بڑے بڑے صحنوں میں آئے جہاں تمازت آفتاب کے باوجود ٹھنڈی ہواؤں اور روایتی خاموشی نے ان کا استقبال کیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ مختلف غاروں میں گھس گیے جہاں کہیں کہیں کافی تاریکی اور زیادہ تر کچھ ایسا سماں تھا جیسے نور ظہور کے وقت ہوتا ہے۔

ان غاروں میں موٹی موٹی دیواروں سے پیٹھ لگائے بیسیوں مجسمے کھڑے تھے جن کے نیچے سیاہ تختیوں پر سفید حروف میں ان کا مختصر سا حال درج تھا۔ بعض کوٹھریوں میں مہاتما بدھ، جنھوں نے بدھی عقیدے کے مطابق تمام ایشی کو نور بخشا، پتھریلے روپ میں اپنے مخصوص انداز سے تشریف فرماتھے۔ ان کے جلو میں خاص طور پر سکون اور سکوت تھا، اور لوگوں کی بلند آواز گفتگو بالعموم یہاں سرگوشیوں میں تبدیل ہوجاتی تھی، ورنہ دوسرے غاروں میں، مذہب سے لاپروانوجوان، دیوتاؤں کے مجسموں کی ساخت اور ان کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ہر قسم کی باتیں کرتے تھے۔ بعض لوگوں کو تعجب تھا کہ یہ غار اور یہ عظیم الشان بت سالہا سال پہلے کس طرح تراشے گیے؟ اور جو ذرا قدامت پرست اور محب وطن تھے انہوں نے آپس میں سرد آہیں بھر کر کہا، آہ! ہندوستان کا یہ ہنرمٹ گیا۔ بھلا بتاؤ تو دنیا کی اور کس قوم نے بغیر اوزاروں اور مشینی آلوں کے پہاڑوں کو موم کی طرح کاٹ کر یہ کمالات دکھائے ہیں؟

اور کلرکوں کی ٹولی اس سیاح لڑکی کے پیچھے پیچھے، پہاڑی مناظر اور پتھریلے بتوں کا معائنہ کرنے میں مصروف تھی۔ جب وہ اپنے شانوں سے لٹکے ہوئے بیگ میں سے کیمرہ نکال کر کوئی تصویر کھینچتی یا کسی مجسمے کے امتداد زمانہ سے ٹوٹے ہوئے حصوں کو دلچسپی سے دیکھتی تو وہ ضرور کوئی نہ کوئی فقرہ چست کردیتے۔ لڑکی چپ رہتی، اس کی نظر میں وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے، شاید وہ ایسے منچلے نوجوانوں کی اوچھی حرکات کی عادی تھی۔ اسی لیے اس نے پلٹ کر ان کو دیکھا تک نہیں، لیکن جین کا ذہن اندر ہی اندر منصوبے بنارہا تھا۔ ایک دفعہ وہ اپنے گروہ سے نکل کر ذرا آگے بڑھا، گویا اسے اس دیونما مجسمے سے خاص دلچسپی ہے، جس کےآگے وہ لڑکی محو کھڑی تھی۔ پھر وہ اس کی لوح پڑھنے کے بہانے ذرا اور آگے سرکا اور بے دھیانی کا سوانگ بھرکےایکا ایکی سیاح لڑکی کے سامنے کنی کاٹ گیا۔ ایک ساعت کے لیے دونوں کی آنکھوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھربھولا بھالا جین صفائی کرنے کے لیے اپنے دوستوں میں آملا جو اس کے متعلق باتیں بنانے لگے تھے۔

اب سب سے آخری بت کی باری تھی جو خانقاہ کے صد رمقام پر نصب تھا۔ اس کے سامنے طویل و عریض بارہ دری تھی جس کا فرش پہاڑی کنکروں کو کوٹ کر مضبوط اور ہموار بنایا گیا تھا۔ اس کے نصف حصے میں جس کے تینوں طرف اونچے اونچے پہاڑ تھے، دھوپ خوب کھلی ہوئی تھی۔ لیکن دوسرے نصف حصے میں جہاں چھت پٹی ہوئی تھی، اندھیرا چھا رہا تھا۔ خود خانقاہ کے اندر تاریکی تھی۔ البتہ اس بت کے عین سرکے اوپر پہاڑی چھت کو کاٹ کر بارہ انچ قطر کا ایک سوراخ بنایا گیا تھا جس میں سے دن کو سورج اور رات کو چاند کی روشنی سیلاب کی طرح اندر آتی اور بت کے آس پاس کے حصے کو خوب روشن کردیتی تھی۔ اس بت کو دیکھ کر سارے کلرک دنگ رہ گیے۔

یہ کسی دیوتا کا قوی ہیکل اور پرہیبت مجسمہ تھا۔ عام مجسموں سے ڈیوڑھا اور دبدبے میں سب پر حاوی۔ اس کی ساخت متحیرکن تھی، یعنی۔۔۔ اس کا نصف، دایاں حصہ مردانہ تھا اور نصف بایاں حصہ زنانہ۔ اس کے سینے کے بائیں جانب ایک گول اور سخت و تند چھاتی تھی اور دائیں طرف کا سینہ اس قدر مردانگی کامظہر گویا وہ عورت سے بالکل بے نیاز ہے۔ اس کے کھڑے ہونے کا انداز رقص کا تھا۔ اس کی دائیں مردانہ ٹانگ، بائیں زنانہ ٹانگ پر چڑھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھوں اور انگلیوں کی ساخت سے ناچ کی ادا ظاہر ہوتی تھی، اور اس پر سرتاپا نظر دوڑانے سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ عورت و مرد کایہ متصل جوڑا کوئی دم میں حرکت کرنے والا ہے۔ پھر اس کا رقص شروع ہوجائے گا، وہ رقص جو ابتدائی آفرینش سے مذکر و مونث کی تخلیق کے لیے جاری و ساری ہے۔اور رحیم کو ہنسی چھوٹ پڑی۔ کہنے لگا ’’یار کوسوجھی خوب!اس بت کے بنانے والے کو ضرور مکتی مل گئی ہوگی۔‘‘

جین چپ چاپ کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں دیوتا کے مجسمے پر گڑی ہوئی تھیں۔ وہ کبھی اس کے چہرے اور سینے کو دیکھتا اور کبھی اس کے پیٹ اور ٹانگوں کو۔ اس کی زبان گنگ تھی، لیکن اس کا دماغ خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کا سارا سر گھوم رہا ہے۔ خیالات پوری تیزی سے گردش کر رہے ہیں، اور اس گردش کا ایک مرکز ہے، یہی بت اور اس کی ساخت! خلیل کے قہقہے پر وہ چونکا۔ ہر شخص کچھ نہ کچھ تنقید کر رہا تھا اور یہ خیال کیے بغیر، کہ ہمارے گروہ میں ایک لڑکی بھی ہے جو چپ چاپ اس مجسمے کو دیکھے جاتی ہے مگر چہرے سے کوئی اثر ظاہر نہیں کرتی۔ قیوم نے جین کو غوطہ میں دیکھ کر تفریحاً کہا، ’’بھئی ہمیں تو تمام غاروں میں بس یہی ایک چیز پسند آئی، پکنک کے سارے دام وصول ہو گیے۔‘‘

جین ذرا ہوشیار ہوا اور ازراہ تمسخر کہنے لگا، ’’میں ایک بات سوچتا ہوں۔۔۔ اگر اس مجسمے کی تقسیم دائیں بائیں کی بجائے اوپر نیچے ہوتی تو بہتر ہوتا۔‘‘ یہ فقرہ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور یکایک ایسا معلوم ہوا کہ مجسمے نے اسے جس تفکر پر مجبور کردیا تھا، اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔حکیم نے اس رائے کی توضیح کرتے ہوئے پوچھا، ’’یعنی بالائی حصہ مرد کا اور زیریں حصہ عورت کا؟‘‘ جین نے قہقہہ لگایا اور ہنسے چلا گیا، ’’نہیں نہیں بلکہ بالائی حصہ عورت کا اور زیریں مرد کا ہوتا۔‘‘

سیاح لڑکی کے لبوں پر ذرا کی ذرا مسکراہٹ سی آئی مگر وہ فوراً اسے چھپا گئی۔ اس کے پاؤں تھک گیے تھے۔ اس لیے وہ وہاں سے ہٹ کر ایک تنہا کونے میں چلی گئی اور ایک چوکور ستون سے لگ کر بیٹھ گئی۔ جین کے احباب کھانے پینے کا اہتمام کرنے خانقاہ کے باہر کھلے میدان میں چلے گیے مگر وہ ان کی نظر بچاکر وہیں رہا اور کنکھیوں سے دیکھنے لگا کہ وہ لڑکی اس طرح بیٹھی ہوئی ہے کہ اس کی پتلون سرک کر اوپر گھٹنوں تک چڑھ گئی ہے۔ اس کی گوری گوری پنڈلیاں دیکھ کر جین کو فوراً اپنے دائیں ہاتھ میں اس چکنی اور نرم بیت کاخیال آیا، جو اس نے ایک پہاڑی عورت سے راستے میں خریدی تھی اور یکبارگی اس کا دل چاہا کہ اس چکنی لکڑی کو ان ننگی پنڈلیوں میں پھنسادے۔

(۳)

اور جب تک وہ دفتر کے بابو غارہائے ایلی فینٹا کے گرد و نواح میں دشت نوردی کرکے خانقاہ واپس لوٹے تو دھوپ ڈھل گئی تھی اور آفتاب غروب ہورہا تھا۔ کھانے سےفراغت پاکر وہ سستانے ذرا بھی نہیں لیٹے بلکہ اپنی چہلوں میں محو فوراً ہی سیر کے لیے چل کھڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ اب جو وہ دور دور کی تفریحی مہمیں سر کرکے آئے تو ان کے پاؤں تھکن محسوس کرنے لگے اور ان کے گھٹنے مسلسل حرکت سے بوجھل ہوگیے۔ پھر انھوں نے اپنے چاروں طرف خاموشی دیکھی۔ شیشم اور نیم کی ٹھنڈی چھاؤں میں اب کہیں بھی کوئی گروہ آباد نہیں تھا۔ تمام سیلانی ساحل کی طرف روانہ ہوگیے تھے اور غاروں کی بیرونی صحنچیاں خالی رہ گئی تھیں۔ چھ بجنے والے تھے اور جہاز کی روانگی قریب آگئی تھی۔ یکایک انھیں احساس ہوا کہ اگر ہمیں دیر ہوگئی اور جہاز ہمیں یہیں چھوڑ گیا تو کل غیرحاضری کا کیا انجام ہوگا؟ اور یہ رات کہاں بسر ہوگی؟ یہ سوچتے سوچتے ان کے قدموں میں تیزی سے جنبش ہوئی اور وہ جلدی جلدی پہاڑیوں پرسے اترنے لگے۔

لیکن نہیں۔۔۔ باوجود ڈھلان کے ان کی تیزگامی کام نہیں آئی۔ ان کے پہنچتے پہنچتے جہاز نے ایلی فینٹا کا ساحل چھوڑ دیا۔ اور وہ کلرکوں کی ٹولی دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ ساحلی دلدل کے کنارے اور سلسلہ ہائے کوہ کے دامن میں بس اکا دکا لوگ نظر آتے تھے، باقی سارا علاقہ سنسان اور سونا ہوگیا تھا۔ انھوں نے سوچا اب یہیں رات کاٹنی ہے، اس لیے اس ٹیلے پر چلے چلیں جس کے قریب نیبو اور بیل کے سرسبز درختوں کی قطاریں ہیں۔ وہی جگہ محفوظ رہے گی۔ ممکن ہے کل صبح کسی جزیرے سے کوئی جہاز آتا ہوا مل جائے تو ہم فوراً اس میں سوار ہوجائیں اور جب وہ سب ہارے ہوئے کھلاڑیوں کی طرح سبز پوش ٹیلے کی جانب روانہ ہونے لگے تو یکایک انھیں معلوم ہوا کہ جین ابھی ابھی کہیں غائب ہوگیا ہے۔ اور اس کے اس طرح سرک جانے کی کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی۔

خانقاہ کے پھاٹک تک پہنچتے پہنچتے وہ سیاح لڑکی بے حال ہوگئی۔ اتنی طویل چڑھائی پر پوری طاقت سے بھاگنے سے اس کا سانس پھول گیا۔ اور جب وہ بند پھاٹک پر سے اندر کودی تو اس سے اٹھا نہیں گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی۔ ہر چہار طرف سناٹا چھایا ہوا تھا، اور خانقاہ کی صحنچیاں چاندنی رات میں صاف و شفاف نظر آرہی تھیں۔ اس نے گھبراکر گردن اٹھائی اور جین کو اپنے تعاقب میں آتے ہوئے دیکھ کر سوچنے لگی اب میں کہاں پناہ لوں؟ مجھے کون اس سے بچائے گا؟ اور وہ بجلی کی سی سرعت سے بھاگی بھاگی خانقاہ کی بارہ دری میں پہنچ گئی جس کے اندرونی حجرے میں غارہائے ایلی فینٹا کا سب سے عجیب و غریب اور انتہائی خوفناک بت۔۔۔ زنانی ٹانگ پر مردانی ٹانگ رکھے انتہائی ہیبت و جلال کےساتھ کھڑا تھا۔ یہاں کی ششدر کن اور پر سحر فضا سے اسے بڑی ڈھارس بندھی اور اسے یقین ہوگیا کہ اب وہ دیوتا کی حفاظت میں ہے۔ اسے اب کوئی نہیں ستا سکتا۔

لیکن جب اس نے جین کو بے قابو وحشی کی طرح بارہ دری میں بھی پھلانگتے ہوئے دیکھا تو وہ سہم گئی۔ اس کی مدافعتی قوتیں تو اسی وقت سلب ہوگئی تھیں جب جہاز کے چھوٹ جانے پر، اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کے لیے محفوظ ترین مقام یہی غار ہیں، وہ یہاں آرہی تھی۔۔۔ کہ راستے میں جین نے اپنی بہیمانہ دیوانگی میں اسے اپنے سینے سے لگانا چاہا اور وہ بصد مشکل اس کے چنگل سے نکل کر بھاگی تھی۔ اب جو اس نےاس تنہائی اور خاموشی میں اسے دیکھا تو اس نے جان لیا کہ مجھ میں اپنی حفاظت کی طاقت نہیں رہی۔ چڑھائی، گزشتہ مدافعت اور ڈر سے اس کے سب کس بل نکل گیے۔۔۔ آخر اسےایک بات سوجھی اور وہ اسے بہلانے کے لیے اس کے نزدیک آتے ہی مسکرانے لگی۔اس نے کہا، ’’یہ جگہ بڑی سحرناک ہے۔ یہاں صفحہ تاریخ کے گمشدہ حروف منقش ہیں۔ آئیے انہیں دیکھیں۔‘‘

جین نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے دیکھا کہ اس لڑکی کی پتلون گھٹنے پر سے پھٹ گئی ہے اور جلد چھل جانے سے اس کے خون نکل رہا ہے۔ خون دیکھ کر اس کی حیوانیت کو مہمیز لگی اور وہ بغیر اس کی بات پر توجہ کیے اس کے بالکل قریب آگیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے دل و دماغ سے عوائد رسمیہ اور اخلاق و توجیہات یک قلم مٹ گئی ہیں اور وہ اس لڑکی میں سوائے اپنی نفسانیت کے سامانِ سکون کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ اس نے زبردستی اس کی کمرکے گرد حلقہ ڈال دیا اور گھٹی ہوئی آوازمیں کہنے لگا، ’’تم مجھ سے علیحدہ ہونے کی کوشش نہ کرو۔ تم مجھ سے بچ نہیں سکتیں۔‘‘ اس سیاح لڑکی نے ڈری ہوئی ہرنی کی طرح اسے ایسی نظروں سے دیکھا جو فریاد کر رہی تھیں کہ اے ظالم! مجھ پر رحم کر۔۔۔ اور وہ اپنے حواس قائم رکھتے ہوئے بولی، ’’آپ کے ساتھی کہاں ہیں؟‘‘

جین نے لاپروائی سے جواب دیا، ’’وہ ساحلی میدان میں ہیں۔۔۔ جہاز کے چھوٹنےکے بعد میں نے تمہیں ادھر آتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اس لیے میں انہیں چھوڑ کر تمہارے پیچھے پیچھے چلا آیا۔۔۔ ذرا میری گود میں لیٹ جاؤ۔‘‘

یوں اپنی طرف کھینچ لینے سے لڑکی کو غصہ آگیا مگر وہ اپنی جانب میں عقل مندی سے کام لیتی رہی۔ اس نے کہا، ’’انسان کے پاس صرف جسم ہی تو کل کائنات نہیں۔ اس کی دوسری صلاحیتوں پر بھی تو نظر رکھنی چاہیے۔‘‘ پھر کسمسائی اور اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش کرتی ہوئی بولی، ’’آپ مجھے چھوڑ دیجیے۔ یہ دیکھیے، میرے پاس یہ ننھا سا باجہ ہے۔ میں اسے بجانا جانتی ہوں۔ مجھے ہندو کلاسیکل رقص بھی آتا ہے۔ میں گا بھی سکتی ہوں۔ یا آپ چاہیں تو ہم دونوں کسی موضوع پر بحث بھی کرسکتے ہیں۔۔۔ بس اس طرح یہ ساری رات خوش و خرم گزر جائے گی۔۔۔ آپ مجھے چھوڑ دیجیے۔۔۔‘‘ مگر اس کی التجا بےکار رہی۔ اس نے اسے اٹھنےنہیں دیا اور کوشش کرتا رہاکہ اس کے صندلی رخساروں پر اپنے لب رکھ دے۔

پھر اس نے اس کی قمیص کو پتلون میں سے جھٹکا دے کر نکالتے ہوئے کہا، ’’مجھے کچھ اور نہیں چاہیے۔ تمہاری قابلیت کے بجائے مجھے تمہارا جسم درکار ہے۔ تمہارے ناچ سےمیری تسکین نہیں ہوگی، تم بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا بدن میرے حوالے کردو، یہی میرے نزدیک رقص مجسم ہے۔ تمہارے باجے سے میری پیاس نہیں بجھ سکتی۔ یہ ہاتھ ہٹاؤ، تمہارے سینے کا زیرو بم ہی میرے لیے مستقل موسیقی ہے۔۔۔‘‘ اور سینہ دیکھتے دیکھتے اس کی پلکیں جلدی جلدی جھپکنے لگیں۔ اس نے دیکھا کہ اس سپاٹ حصہ جسم میں تناؤ اور کرختگی آگئی ہے اور آہستہ آہستہ دو گول اور سخت چھاتیاں نمودار ہوگئی ہیں۔ اس کی رگ رگ میں جوش پیدا ہوگیا۔ آنکھوں سے چنگاریاں برسنے لگیں اور اس کاخون کھولتے ہوئے سیال مادے کی طرح اس کے عضلات میں حرارت و اضطراب پیدا کرنے لگا۔

لڑکی بے بس اور نڈھال ہوکر نیچے گر پڑی اور جونہی جین نے اس کا لباس اتار کر پھینکا، اسے پیچھے سےایک خوفناک ہنسی سنائی دی۔ وہ سراسیمہ ہوکر ایکا ایکی گھوم گیا اور دیکھا کہ اس عجیب و غریب خوفناک دیوتا کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ کھیل رہی ہے اور چاندنی کے سیلاب میں اس کے نسوانی اور مردانہ اعضا مائل بہ جنبش ہیں۔ لیکن جین سنبھل گیا اور اس نے دیوتا کی مسکراہٹ کو واہمہ قرار دے کر ٹال دیا۔ اس کی شیطانی رغبتیں پھر سے مجتمع ہوگئیں اور وہ ایک وحشی درندے کی طرح اس سیاح لڑکی پر ٹوٹ پڑا۔۔۔ مگر، مگر۔۔۔

خوف اور ہیبت سےاس کی پتلیاں اوپر چڑھ گئیں۔ جبڑا چرگیا اور سارے بدن پر مردنی چھاگئی۔۔۔ اس نے ایک ناقابل یقین منظر دیکھا تھا۔ ناقابل یقین۔ لیکن سچ، بالکل سچ۔۔۔ یہ کہ اس برہنہ لڑکی کے جسم کا بالائی حصہ زنانہ ہے اور زیریں مردانہ!!