اکیلا درخت
دوگھنٹے کی مسلسل بارش کے بعد مطلع بالکل صاف ہوگیا اور چودہویں رات کی چاندنی میں مری کی دور دور تک پھیلی ہوئی پہاڑیاں دوشیزگانِ بہار کی مانند حسین اور دلفریب نظر آنے لگیں۔ ان کے نشیب میں تروتازہ گھاٹیاں اور خوب صورت قطعات تھے جہاں پہاڑی غلہ کی ہری بھری فصلیں تیار کھڑی تھیں اور دوسری جانب، سربفلک حیاتِ جاوید پانے والے سلسلے وار پہاڑ جو کسی کہن سال کی زندگی کی طرح دراز ہوئے چلے جارہے تھے۔
ابھی دس نہیں بجے تھے اور مال روڈ پر آنے جانے والے خوش خرام لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ اس سیلاب نور اور کوہستانی ماحول میں اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کائنات کی ہرشے کسی نامعلوم سرخوشی سے بے خود ہے۔ اور یہ چلتے پھرتے لوگ، یہ حسن شباب کے متواتر جلوے اور یہ روشنیوں کے دور سے نظر آنے والے، نیلے، سبز اور کافوری رنگ سب میں زندگی کی تابندگی ہے۔
زبید ٹہلتا ہوا جا رہا تھا۔ جب رقص گاہ کے سامنے سے گزرا تو زینے پر ازابل فالسئی گاؤن پہنے کسی غیرملکی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اپنے مخصوص دلستاں انداز میں اتر رہی تھیں۔۔۔ ازابل! اسے چند سال پہلے کی باتیں یاد آگئیں۔ یہ وہی چنچل ازابل ہے جس کے حسن نے اسے اپنا شیدا بنالیا تھا اور اس کی آغوش میں پہلے ہی رقص کے بعد اس کے لیے بے چین اور بے قرار ہوگیا تھا۔
لیکن ایک دن یہ بے چینی، یہ بے قراری حسب معمول سطحی اور جوانی کا تقاضہ ثابت ہوئی۔ چنانچہ جب اس کا جی ازابل سے بھر گیا تو اس کی طبیعت مس مہرو پٹیل کی طرف مائل ہوگئی جسے خوش نما لباس پہننے کا بڑا سلیقہ تھا، اور جو بڑی دل موہ لینے والی باتیں کیا کرتی تھی۔ اس سے متاثر ہوکر زبید کادل چاہا کہ کاش یہ میرے پہلو میں چلی آئے۔ اسے ناکامی کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ دولت اور صحت کی بناپر وہ ہمیشہ کامران رہا کرتا تھا۔ چنانچہ وہ مہرو کی رفاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس بڑے باپ کی تعلیم یافتہ بیٹی کومحبت کا یقین دلاکر اس نے اپنا کرلیا۔ اور سارے سیزن وہ مری میں عیش و طرب کی محفلیں آراستہ کرتا رہا۔
لیکن ازابل اور مہرو پر ہی کیا موقوف ہے۔ پنڈی کی وہ لکڑیاں جمع کرنے والی مرادن بھی تو اس کی جوانی کے ڈرامے میں ایک اہم کردار تھی۔ جنوب میں بہنے والی ندی کے اس پار اس کا مسکن تھا اور وہ وہاں سے لکڑیاں جمع کرکے آبادی میں بیچنے آیا کرتی تھی۔ ایک دن صبح کو زبید ذرا غیرآباد حصے میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ جس سمت سے مشرق کا شکاری اپنی زرتار کمند آب نیلگوں پر پھینک رہا ہے، ایک لڑکی لکڑیوں کا گٹھا کمر کے سہارے، کھانچے میں رکھے لہنگے کے پائنچوں کو ہاتھوں میں اٹھائے پایاب ندی کو پار کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کے تن بدن میں جوانی کی گنگا جمنی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ اس کا چہرہ آفتاب تازہ کی مانند پررونق تھا۔ اس کی آنکھوں میں دوشیزگی اور معصومیت کی علامت تھی۔ اس کی تنومند ٹانگوں اور ہاتھوں سے ملاحت اور قوت کا اظہار ہوتا تھا۔ یہ مرادن تھی جو اس کے قریب آتے آتے اپنی پوری کشش کے ساتھ اس کے احساسات پر چھاگئی اور وہ وہیں، ندی کے کنارے بیٹھا بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ مرادن نے پانی سے نکل کر پائنچے چھوڑ دیے اور چند بار پاؤں جھٹک کر آزاد ہرنی کی طرح نیم کے درخت کے نیچے سے شہر کی طرف چلی گئی۔
دوسرے دن پھر اس نے اسے ندی میں ابھرتے سورج کی طرح طلوع ہوتے دیکھا تو اس کا دل اس غزال چشم پہاڑن کے لیے مچل گیا۔ لکڑیوں کی خریداری کے بہانے اس نے اس سے راہ و رسم پیدا کرلی اور آہستہ آہستہ اس الہڑ دوشیزہ کا رومان درختوں کی اوٹ، پہاڑیوں کے دامن اور ندی کے کنارے پروان چڑھنے لگا۔
مرادن انجان تھی۔ اسے علم نہیں تھا کہ آغاز کاانجام بھی ہوتا ہے۔ جو کہانی ایک دفعہ شروع ہوجائے وہ کبھی ختم بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ جب وہ اپنی دوشیزگی زبید کے سپرد کرچکی تو اسے محسوس ہوا کہ جسے وہ اپنا سمجھتی تھی وہ تو غیر نکلا۔ پھر کیوں اس کی باتوں میں آکر اس نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کردیا؟ اس نے یہ کیوں یقین کرلیا کہ ایک شہری اپنی شہریت اور شخصیت چھوڑ کر اس چمپئی کرتی والی کا دیس بسالے گا اور سب کے سامنے اقرار کرلے گا کہ ہاں میں ہی اس پہاڑن کے بچے کا باپ ہوں۔ بلکہ وہ تو کہیں چلا گیا اور ساری بستی میں کہیں نظر نہیں آیا۔ مرادن کے دل کو بڑی ٹھیس لگی۔ اسے ایسا معلوم ہوا کہ ساری دنیا پر اندھیرا چھا رہا ہے، اور وہ خود زمین کے کسی گڑھے میں گر پڑی ہے۔ اس کا دماغ ماؤف ہوگیا۔ وہ اب کیا کرے؟
ایک دن بالکل خلافِ امید اس نے کہیں دیکھا کہ زبید چند ساتھیوں کے ہمراہ شکار کھیلنے جارہا ہے۔۔۔ جیسے چاروں طرف چھائے ہوئے اندھیرے میں چراغ جل اٹھیں، اس کے نہاں خانے میں دیے روشن ہوگیے۔ وہ اپنی مایوسی اور پریشانی بھول کر بے جھجک، بے محابہ اس کے پاس چلی آئی۔ زبید حیران رہ گیا۔ اسے خیال تک نہیں تھا کہ مرادن اس علاقے میں نظر آسکتی ہے۔ اس نے تو اس کی رہ گزر سے کئی کئی فرلانگ تک راستہ چلنا چھوڑ دیا تھا۔ اب اسے یوں دیکھ کر وہ کچھ گھبراگیا۔ لیکن فوراً ہی سنبھلا۔ اس نے اپنے دوستوں کو پرے چلنے کا اشارہ کیا اور جب وہ اکیلا رہ گیا تو اس نے مرادن کو نظر بھر کر دیکھا۔ وہ صورت سے بے صورت ہوگئی تھی اور اس کا جسم بے ڈول ہوگیا تھا۔
زبید کے چہرے پر نرمی کے بجائے درشتی اورنگاہوں میں ترحم کی جگہ جھنجھلاہٹ آگئی۔ لیکن مرادن کو غصہ نہیں آیا۔ وہ ضبط کرکے رہ گئی۔ جیسے کسی نے اندر سے طیش کا گلا گھونٹ دیا ہو۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں بھیک اور التجاامنڈ آئی۔ اس نے زبید کے ہاتھ پکڑ کر اپنی کمر کے گرد لپیٹ لیے اور دیکھنے لگی۔ زبید سمجھ گیا۔ اس کا پیٹ اب بڑا ہوگیا تھا۔ اب اس کے بازو مرادن کو اپنی آغوش کے پورے ہالے میں نہیں لے سکتے تھے۔ مگر وہ کیا کرسکتا تھا۔ جوانی کے تیز قدم سوچ سمجھ کر تھوڑی اٹھتے ہیں۔ اس کی باتیں توشروع ہی سے بناؤٹی تھیں۔ اس نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور جیب میں سے چند روپے نکال کر اس نے مرادن کی مٹھی بند کردی۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ سکتی زبید نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ مرادن کی آس جاتی رہی۔ اس کا دل ٹوٹ گیا اور وہ منہ کے بل زمین پر لیٹ کر رونے لگی۔ اس کے بال بکھر گیے۔ اور اس کابڑھا ہوا پیٹ کرتی میں سے نکل کر مٹی پر آٹکا۔۔۔ مٹی پر، جس میں زندگی کے عروج اور زوال کی ہزارہا داستانیں ہیں۔
اور یہی نہیں، اس کی ہوس ناک زندگی پر ایک اور عورت بھیانک قہقہہ لگاتی ہے۔ اور وہ عورت ہے زیبا۔ اس کے دوست کی بیوی، جس کا اجلا بدن سیاہ ساڑی میں ملبوس اس کی نظروں میں سما گیا تھا۔ اور جب تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، وہ برابر پارسائی کی راہ پر زیبا کا تعاقب کرتا رہا۔۔۔ لیکن یہ سب کیوں ہے؟ یہ خیال کیوں اس وقت اس کے دماغ میں آرہے ہیں؟ متحرک فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردے پر نہ جانے کتنی تصویریں یکے بعد دیگرے آگئیں۔ کوئی دھندلی۔ کوئی روشن۔ اور یہ چار، فالسئی گاؤن میں ملبوس ازابل، فیروزی اسکرٹ میں مہرو، چمپئی کرتی پہنے مرادن اور سیاہ پوش زیبا۔۔۔ یہ چار تو بے حد روشن تھیں۔ لیکن اسے ان عورتوں کا خیال صرف آج اور اس لمحے آیا ہے، ورنہ ان سے تعلق ختم ہونے کے بعد اسے بھول کر بھی ان کا کبھی خیال نہیں آیا۔ گویا وہ لوح حیات پر حرف غلط تھے جو آنِ واحد میں مٹ گیے۔ جیسے وہ ناگوار اور ناپائیدار تصویریں تھیں جو از خود تحلیل ہوگئیں۔ دراصل زبید نے ان عورتوں سے واقعی اثر کبھی نہیں لیا۔ ایک دفعہ دل سے اترکر وہ کبھی اسے یاد نہ آئیں۔
(۲)
میمونہ سے شادی کے بعد زبید میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہوگیا۔ وہ اس کی آوارگی، وہ اس کی ہوس ناکی، وہ عیش پرستی، سب رخصت ہوئیں۔ اس کا ہرجائی پن جاتا رہا اور اسے اب معلوم ہوا کہ وہ خاتون جو محرم راز ہے، حسن رہ گزر سے کس قدر ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے۔ اس میں کتنی خوبیاں پنہاں ہیں، اور یہ سچ ہی ہے۔ انسان کی جب تک کوئی منزل نہ ہو وہ بھٹکتا ہی رہتا ہے۔ اس کے بھٹکنے میں لاکھ ندرت اور لذت سہی، اس میں وہ آسودگی اور سکون تو نہیں جو منزل مقصود پر پہنچنے سے ملتا ہے۔ اور اس انقلاب کی وجہ صرف میمونہ تھی جس کی خوب صورتی اور رعنائی نے اسے مسحور کرلیا تھا۔ وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ اسے اپنے سرکا تاج اور اپنے سہاگ کا محافظ سمجھتی تھی، اور زبید کے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔ اس زاویۂ نگاہ سے تو اسے کسی عورت نے کبھی نہیں دیکھا۔ کسی نے اس کی اتنی قدر نہیں کی اور پھر اس کی ایک ایک ادا اسے بھاگئی تھی۔ پھر کیوں نہ اس کے ولولے اسی ایک ہستی پر جمع ہوجاتے؟
سڑک کے موڑ تک وہ اکیلا رہ گیا۔ ہجوم اور اس کی چہل پہل پیچھے رہ گئی، اور اچانک اس نے دیکھا کہ رکشا میں ایک جوانی سے بھرپور فرنگن حسینہ ایک مرد کی آغوش میں نیم دراز چلی جارہی ہے۔ اس کافراک گھٹنوں سے اوپر سرک گیا تھا۔ معاً زبید پر جنونِ ہوس سوار ہوگیا۔ مگر اس کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ جس راہ پر گامزن ہوچکا ہے اس سے واپس نہیں ہوگا۔ اس دیونما پہاڑ کی اس جانب جو آبادی ہے وہاں اب وہ دوبارہ نہیں جائے گا۔ اسے اب کسی عورت سے تعلق منظور نہیں، اور وہ جلدی جلدی قدم اٹھاتا اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
(۳)
زبید گھر میں داخل ہوا تو میمونہ دریچے کے پاس بیٹھی ہوئی، باہر کے رخ ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ اس کا استغراق اس وقت دنیا کی ہرشے پر غالب تھا۔ زبید کی آمد بھی اسے متوجہ نہ کرسکی۔ وہ اس کے قریب آگیا اور چاہتا تھا کہ اس کے فرقِ ناز کو جوش محبت میں اپنے سینے سے لگالے کہ یک لخت میمونہ کے بشرے کو دیکھ کر وہ وہیں کا وہیں ٹھٹک گیا۔ یہ کیا؟ اس کا چہرہ اس قدر سنجیدہ کیوں ہے؟ اس کی خوب صورت آنکھوں میں غم کی گھٹائیں کیو ں چھائی ہوئی ہیں؟
اس نے آہستہ سے اس کے شانے ہلائے، ’’میمونہ۔۔۔!‘‘
میمونہ نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ لیکن اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ بلکہ اس نے زبید کی جوشیلی بانہیں علیحدہ کردیں اور پھر باہر چاندنی کے آبشار میں نہائے ہوئے منظر کو دیکھنے لگی۔ زبید نے اسے سہارا دے کر اٹھایا۔ وہ کھڑی ہوگئی۔ اسے تعمیل میں کوئی عذر نہیں تھا۔ وہ اس کے ساتھ مسہری پر آبیٹھی مگر اس کی نگاہیں دریچہ کے باہر جمی رہیں۔
زبید نے اسے اس حالت میں پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کے سان و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ میمونہ، یہ کم عمر سمن اندام لڑکی جسے ہمیشہ سے، ہر طرح کا لطف و آرام میسر ہے کبھی یوں غم دیدہ بھی ہوسکتی ہے۔ آخر اس نے آہستہ سے کہا، ’’کیا بات ہے؟‘‘ میمونہ نے اسے نظر بھر کر دیکھا اور بے چارگی سے بولی، ’’اس دریچے کے باہر، پہاڑی کے ڈھلان پر ایک درخت لرز رہا ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟‘‘
’’میں اسے بہت دیر سے دیکھ رہی ہوں! اسے دیکھ کر مجھے خلیق یاد آگیا ہے!‘‘
’’کون خلیق؟‘‘ زبید نے حیرت سے پوچھا۔
’’وہ دیرہ دون میں ہمارے مکان کے قریب رہا کرتا تھا۔‘‘
زبید کو ایک دھچکا سا لگا اور وہ پریشان آواز میں بولا، ’’تمہیں اس سے محبت تھی؟ کیا اسی کی یاد تمہیں ستا رہی ہے؟‘‘
جیسے میمونہ نے اس کے سوال نہیں سنے۔ وہ مدھم آواز میں کہنے لگی، ’’اس درخت کو لرزتے دیکھ کر مجھے وہ وقت یاد آگیا جب۔۔۔‘‘
’’جب وہ تمہارے گلے میں باہیں ڈالا کرتا تھا؟ کون ہے وہ؟‘‘
میمونہ نے اسے معصومیت سے دیکھا اور کچھ نہیں بولی۔ زبید کے دل میں جو اب تک صرف ہوس یاجوشیلی محبت سے واقف تھا ایک نیا جذبہ پیدا ہوگیا۔ رقابت نے اس کے حواس مختل کردیے اور وہ جھنجھلاکر بولا، ’’کیا اس کے کوڑھ نکل آئی تھی؟ یا چیچک نے اس کی جان لے لی؟‘‘
میمونہ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اور وہ آہستہ آہستہ گویا ہوئی، ’’وہ بے چارا قبر میں سو رہا ہے۔ اس نے میری خاطر جان دی۔ نمونیہ کی وجہ سے اسے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی مگر جب والد صاحب کا تبادلہ لکھنؤ ہوا تو روانگی کی رات میں اپنے کمرے میں سو رہی تھی کہ کھڑکی پر ٹھک ٹھک کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے کھڑکی کے شیشوں میں سے دیکھا کہ لیچی کے درخت کے نیچے خلیق کھڑا ہے۔ نہ جانے اس غریب نے کس مشکل سے لیچیاں کھڑکی پر ماری ہوں گی۔‘‘
زبید کے چہرے پر رنگ بدلنے لگے۔ وہ بیتابی سے بولا، ’’وہ تمہارا عاشق اندر کیوں نہیں آیا؟‘‘
میمونہ اس وقت کسی دوسرے عالم میں تھی۔ وہ زبید کی پروا کیے بغیر کہتی رہی، ’’آدھی رات جاچکی تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا اور ایسی ہی چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ میں ہمت کرکے اس کے پاس چلی گئی۔ وہ کھڑا کانپ رہا تھا۔۔۔ اس سبز درخت کی طرح کانپ رہا تھا۔‘‘ میں نے کہا، ’’خلیق اس وقت تم باہر کیوں نکل آئے ہو؟ تمہیں کچھ ہوگیا تو۔۔۔‘‘
میمونہ ایک لمحے کے لیے رک گئی۔ زبید بھی خاموش رہا۔ وہ اسے ٹوک کر آگے سے روکنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ تو خود یہ جاننا چاہتا تھا کہ چاندنی رات میں جب محبوب و محب ملے تو انھوں نے کیا کیا؟میمونہ آہِ سرد بھر کر کہنے لگی، ’’کھانسی کی شدت اور سردی کے مارے خلیق کی آواز نہیں نکلتی تھی۔‘‘ اس نے بہ مشکل کہا، ’’اب تمہارے جانے کے بعد میں جی کر کیا کروں گا؟‘‘
زبید پر خاموشی طاری ہوگئی۔ اس کے خیالات میں تصادم ہورہا تھا۔ میمونہ پھر بولی، ’’میں نے زبردستی اسے واپس گھر بھیج دیا اور ہمارے لکھنؤ پہنچنے کے دوسرے روزاس بچارے کا انتقال ہوگیا۔ سچ کہتی ہوں وہ بڑا نیک تھا۔۔۔‘‘
زبید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے پاس سے اٹھ کر اس نے دریچے کے کواڑ بھیڑ دیے۔ لیکن وہاں سے ہٹتے ہوئے آپ ہی آپ اس نے باہر جھانکا۔ پہاڑ کی ڈھلان پر ایک درخت ہوا کے جھونکوں سے لرز رہا تھا۔ اس کے قدم وہیں جم گیے۔ اس کی نظر اس درخت میں الجھ گئی اور اس کے خیالات کا سمندر اپنی پوری قوت کے ساتھ اس کے دماغ میں موجزن ہوگیا۔ وہ خود لاکھ آوارہ سہی، اس کی اپنی زندگی گھناؤنی اور قابل نفریں سہی لیکن وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی بیوی کے دل میں کسی دوسرے کا خیال بھی آسکے۔ تو کیا وہ اسے ہلاک کردے؟ میمونہ نے جو اس کا اعتماد یوں پاش پاش کردیا ہے، کیا وہ اس کی اسے سخت سے سخت سزا دے دے؟ اور اس تصور کے آتے ہی وہ اس کی طرف مڑا لیکن وہ سوگئی تھی اور اس کی معصوم صورت سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے دل میں کوئی خلش ہے۔ وہ کسی کے خیال میں محو ہے۔ اور یکایک زبید کو یوں محسوس ہوا گویا کسی نے اس کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔۔۔ جیسے وہ اور میمونہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوں۔ ایک وہ ہے کہ اس کی تمام عمر حسن پرستی میں گزری مگر وہ اس چوٹ سے ذرا بھی آشنا نہ ہوا جو زندگی کو رفعت اور ابدیت عطا کرتی ہے۔۔۔ اور ایک میمونہ ہے جس کی زندگی کبھی طوفانی نہیں ہوئی مگر اس کے دل میں ایک درد ہے۔ اس کے احساسات میں ایک زخم ہے۔ اس کی آہ میں خلوص ہے۔
وہ اس کے بالکل قریب چلا گیا۔ میمونہ بے حال اور بے ترتیبی سے پڑی تھی۔ زبید کی محبت عود کرآئی۔ اس نے اسے آہستگی سے ٹھیک طرح لٹا دیا۔ پھر وہ اس کے پاس مسہری پر بیٹھ کر اس کے چہرے کو نیم وا آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ وہ یقیناً اسی کی ہے اور اس پر اسے وہ حق اور اختیار حاصل ہے جو اسے کبھی اور کسی پر حاصل نہیں ہوا۔ دفعتاً اس کا جی چاہا کہ اس خوابیدہ حسینہ کو، اپنی منکوحہ کو، اپنے بازوؤں میں لے کر خوب بھینچے۔۔۔ مگر نہیں۔ اس قدر نزدیک، اتنا قریب ہونے کے باوجود شاید وہ اس سے دور ہوگئی ہے۔ جیسے وہ زبید کو ساحل پر چھوڑ کر موج آسا کہیں اور چلی جارہی ہے۔
زبید اپنے خیالات سے خود ہی سہم گیا اور یکبارگی جب اس نے دریچے میں سے جھانکا تو دیکھا۔۔۔ کہ پہاڑ کی ڈھلان پر ایک درخت تنہا اور اکیلا سردی سے کانپ رہا ہے۔