دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں

دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
میں نے وفور شوق میں سجدہ کیا کہاں نہیں


مانا کہ مشت خاک ہوں پھر بھی مجھے یہ فخر ہے
میری نگاہ سے پرے وسعت دو جہاں نہیں


خون دل غریب سے سینچ سکے نہ جو چمن
ننگ چمن ہے وہ بشر حاصل گلستاں نہیں


بار شب فراق سے شیشۂ دل ہے چور چور
پھر بھی ہیں مسکراہٹیں لب پہ مرے فغاں نہیں


تیرے غم فراق میں میرے لبوں پہ آج کل
نغمۂ زندگی نہیں بادۂ ارغواں نہیں


فصل بہار کے لئے میں نے بھی خون دل دیا
دور بہار میں مگر میرا کہیں نشاں نہیں