دیکھا تھا جو بھی خواب میں اب کیا ہے کچھ نہیں

دیکھا تھا جو بھی خواب میں اب کیا ہے کچھ نہیں
اس حسن اور شباب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


میرے لیے تو جیسے وہ کاغذ کا پھول تھا
اس خوش نما گلاب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


اب ہیں کتاب زیست کے اوراق منتشر
اس کے ہر ایک باب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


مجھ کو دکھا رہا تھا ابھی تک وہ سبز باغ
ہے زندگی عذاب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


خوش فہمی کے شکار تھے وعدے پہ جس کے سب
کیا کیا ملا حساب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


جو کچھ بچا کے رکھا تھا آئندہ کے لیے
سب مل گیا وہ آب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


میرا سوال اس کے لیے لا جواب تھا
جو کچھ ملا جواب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


کل تک سمجھ رہا تھا جسے جان آرزو
اس حسن انتخاب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


روشن تھی جن سے شمع شبستان زندگی
یادوں کے اس سراب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


جو لطف اس کی نقرئی آواز میں ملا
اس چنگ اور رباب میں اب کیا ہے کچھ نہیں


برقیؔ تھا جس کا روئے حسیں مثل ماہتاب
اس رشک ماہتاب میں اب کیا ہے کچھ نہیں