دیکھ کے جس کو کبھی دل بھی نہ دھڑکا اپنا (ردیف .. و)

دیکھ کے جس کو کبھی دل بھی نہ دھڑکا اپنا
یاد کیوں آتا ہے رہ رہ کے وہ چہرہ ہم کو


ہر طرف سے جو یہ دل ٹوٹا تو دھیان آتا ہے
ہائے اک شخص نے کس درجہ تھا چاہا ہم کو


سارا دن دھوپ میں جھلسے ہیں تو اب شام ڈھلے
کیوں بلاتا ہے ہر اک پیڑ گھنیرا ہم کو


اس کی چاہت کو سہارا نہ کہوں جینے کا
راس آتا نہیں کوئی بھی سہارا ہم کو


ہر نفس ہم نے سرابوں میں گزارا فیروزؔ
ہر گھڑی پاس بلاتا رہا دریا ہم کو