دے کر فریب پیاس کی آزردگی کو ہم

دے کر فریب پیاس کی آزردگی کو ہم
آؤ نا گھونٹ بھر کے پئیں زندگی کو ہم


کھلنے لگی ہے نیند کی بھیدوں بھری کتھا
چھونے لگے ہیں خواب کی دل بستگی کو ہم


صحرا قبول کرتا ہے بارش کا عندیہ
مٹی میں گوندھ لیتے ہیں جب تشنگی کو ہم


رکھ کر ہزار آئینے اس رخ کے روبرو
دھوکہ دیا کریں گے تری سادگی کو ہم


رقصاں ہے بوزنوں کی طرح وقت بے تکان
تکتے ہیں پتلیوں کی طرح ڈگڈگی کو ہم


اندر ہی اپنے خاک اڑاتے ہیں دور تک
باہر نہیں نکالتے آوارگی کو ہم


حاجت کے دام گرتے نہیں ہیں نقاب میں
یعنی حجاب کرتے ہیں بے پردگی کو ہم


سنتا تھا بے کنار سمندر ہماری نظم
اوروں کو بھی سناتے رہے دل لگی کو ہم


لفظوں کی میزبانی اگر سونپ دی گئی
مہماں کریں گے آپ کی سنجیدگی کو ہم