دیار غیر سے ہو کر دیار یار جائے گا
دیار غیر سے ہو کر دیار یار جائے گا
جہاں سے جب بھی کوئی صاحب کردار جائے گا
نفی کی کج ادائی میں نہاں اثبات کا عالم
جہاں اقرار نہ پہنچا وہاں انکار جائے گا
بنا سوچے بنا سمجھے یہ اندھے ساتھ ہو لیں گے
کہیں سے تو ہمارا قافلہ سالار جائے گا
خودی کے پر نکل آئیں جو اس مدہوش انساں میں
تو یہ شہکار قدرت کا افق کے پار جائے گا
فقط اسلاف کے کردار پر اپنا عمل ہو تو
کسی دشمن کا بھی ہو وار وہ بیکار جائے گا
خدا سے بخشوا دے گا کسی کا ایک ہی آنسو
کسی کا عمر بھر رونا وہاں بیکار جائے گا
بھلے انجام جو بھی ہو وہاں بولوں گا میں انجمؔ
جہاں خاموش رہنے سے مرا کردار جائے گا