د ستخط

وہ نشے میں د ھت مسلسل رم پیے جا ر ہا تھا۔ پا ر ٹی ختم ہو چکی تھی۔ سب ر قص و سر و ر سے مد ہوش جا چکے تھے۔ایک وہ اور ایک لڑ کا جو اس کا سا تھ د ے ر ہا تھا۔۔۔ وہ خو د تو ریڈ بئیر تک محد و د تھا اور بہت کم لے ر ہا تھا مگر اپنے با س کا ساتھ زر خر ید غلا م کی طر ح سے دے ر ہا تھا۔
بس ایک بار ۔۔۔
ایک با ر ۔۔۔۔
وہ مجھے مل جا ئے تو۔۔۔
کسی بھی قیمت پر ۔۔۔
ایک با ر ۔۔۔، بس ایک بار ۔۔۔۔کسی بھی قیمت پر۔۔۔
تو زند گی میں لو ٹ ۔۔۔لوٹ آؤں گا
کسی بھی قیمت پر ۔۔۔
وہ نشے کی حا لت میں بس یہی الفا ظ د ہر ائے جا ر ہا تھا۔اس لڑکے کو سمجھ آگیا کہ اس شر یف با س کی اس کمزوری سے بہتر اب کو ئی او ر شے نہیں۔وہ اسے سنتا ر ہا ۔۔۔سمجھتا ر ہا۔۔۔با س کو تسلی د یتا ر ہا۔
سر جی ۔۔۔’’ چھو ڑ یے ،ا یسی تو آتی جا تی ر ہتی ہیں۔۔۔‘‘
’’چھو ڑئے سر ۔۔‘‘
’’حکم کر یں تو د نیا کی سب سے حسین ہا ٹ گرل آپ کے قد مو ں میں لے آؤں، ا یک د فعہ حکم تو کر یں ۔۔‘‘
اس کے لہجے میں ا تنا اعتبا ر تھا جیسے وہ مس یو نیو ر س کو بھی اپنے با س کے قد مو ں کی خاک بنا سکتا ہو۔
’’نہیں کے جے نہیں یا ر ۔۔۔
بس ، وہ۔۔تجھے پتا نہیں ۔۔۔
وہ کیا چیز ہے۔۔۔
اپنا د ل، پہلی با ر د ھڑکا ہے کے جے۔۔۔
وہ بھی عمر کے اس حصے میں ۔۔۔جب لو گو ں کو دل کے دو رے۔۔ دورے پڑتے ہیں۔۔۔
اپنا د ل د ھڑکا ہے۔۔۔
اس میں سورج جیسی گر می ہے اور چاند سی ٹھنڈک۔۔۔کے جے وہ نا قا بل بیان سر اپا ہے۔۔۔نا قا بل بیان۔۔۔اس میں سے جیسے کو ئی لہر یں اٹھتی ہیں اور سا منے والو ں کو ۔۔۔اپنی لپیٹ میں لے ۔۔۔لے لیتی ہیں۔ یہ وصف تمہیں پتا کن کو و دیت ہو تا ہے۔۔۔۔؟ چھوڑو ۔۔۔کے جے ۔۔۔ دل دھڑ کا ہے ۔۔۔یا ر
وہ سمجھ گیاکہ با س سچ میں اب باس وہ نہیں ر ہا، کچھ ہوا ضرو ر ہے۔کہیں کو ئی زلز لہ آیا ہے۔کو ئی بڑ ا جغر ا فیا ئی،سمند و ں کو ہلا د ینے والا طوفا ن آیا ہے جو اپنے اثرات بہت گہر ے چھو ڑ گیا ہے۔اس کے اند ر اک ہلچل سی ہو ئی آخر ہے کو ن؟جس کو ہر قیمت پر پا نے کے لیے۔۔۔
با س کی یہ حا لت تو میں نے تب بھی نہیں د یکھی تھی جب انہو ں نے اپنی بیو ی کو طلا ق دی تھی۔اور بچے چھو ڑے تھے ۔اپنی ما ں کے بعد اگر انہیں محبت تھی تو وہ اپنے بچو ں سے تھی۔ مگر بچو ں کو محبت اپنی ما ں سے تھی۔لہٰذا وہ پیسوں کی مشین بنا ر ہا۔سٹیٹس کا بت ، گر یڈ ٹو نٹی ون کا آفیسر۔جس پہ معاشر ہ ر شک کر تا ہے۔
اسے یہ سب سو چتے سوچتے، پیتے پیتے پھر اپنا گر یڈ یا د آنے لگا ۔صر ف نا ئینٹین پلس۔۔۔اس کی ر کا وٹ بھی تو یہی با س تھا۔یہی اس کا یا ر ، شر یف با س ، ایک فا ئل کے سا ئین ہی کی تو با ت ہے۔۔۔
اس کا د ھیا ن پھر اس لڑ کی کی طر ف چلا گیا
کو ن ہو سکتی ہے وہ پر ی وش؟
میں بھی تو اس شہر کی ہر پا ر ٹی میں جا تا ہو ں تو پھر کیو ں نہیں جا نتا۔۔۔؟
میر ی ں نظر و ں سے کیو ں نہیں گز ری؟
اس کے با س نے گلا س میز پر ر کھنا چاہا تو اچانک وہ گر کر ٹوٹ گیا۔اس نے خا مو شی سے با س کی طر ف گہر ی نظر وں سے د یکھا۔ اسے ان پر ر حم آنے لگا۔
سر چلتے ہیں؟
چلو۔۔۔لے چلو جہا ں چاہو ۔۔۔
اس نے انہیں سہا را د یا اور ہو ٹل سے با ہر لے گیا۔ ڈرا ئیور کو فون کیا وہ پا ر کنگ سے گا ڑی پا س لے آیا۔ دونو ں پچھلی سیٹ پر بیٹھے۔ وہ با س کو اپنے گیسٹ ہوم میں لے گیا۔اس نے انہیں کمر ے تک پہنچا یا۔
وہ اسے بھو لنے کے لیے ابھی اور پینا چاہ ر ہا تھا مگر حا لت اب ایک گھو نٹ کی اجا زت بھی نہیں د ے ر ہی تھی۔
کے جے نے ہمت کی اور پو چھ ہی لیا سر وہ ہے کو ن؟
’’ہے یا ر ۔۔۔ایک سنجید ہ لڑکی۔۔گو لڈ میڈل دینے گیا تھا اس کو۔۔۔
سنجید ہ ہے ،اپنے آپ میں ر ہنے والی
اپنے گھر میں ر ہنے والی،گھر کی اونچی چار دیواری کے بیچ۔۔
ہے یا ر ۔۔۔وہ ہے۔۔
مگر نہیں ہے۔۔۔‘‘
سر وہ کر تی کیا ہے؟کہاں ملے گی؟
ار ے یا ر نہیں معلو م ، کچھ نہیں معلو م ۔۔نہیں۔۔۔
میر ی گا ڑی میں ایک ر سالہ پڑا ہے
ایک ر سالہ ۔۔۔
وہ د یکھ۔۔۔لو۔۔۔
ظالم اپنے ملک کے لیے لکھتی بھی نہیں۔۔۔
’’سراپنے ملک میں کو ئی پڑ ھتا بھی تو نہیں‘‘وہ د ھیرے سے بڑ بڑا یا
اس نے با س کے ڈرائیور کو فون کیا۔وہ کچھ د یر میں گھر پہنچ چکا تھا۔کے جے نے اپنے ملا زم کو با س کی گا ڑی سے ر سالہ لا نے کو کہا۔
اتنی دیر میں وہ اپنے و زیٹنگ کا رڈکو غو ر سے د یکھتار ہا، کامرا ن جواد۔۔مگر با س ہمیشہ کے جے ہی کہتا تھا۔وہ مسکرا یا ۔۔۔باس بستر پر دراز ہو چکا تھا۔
اس نے ر سالہ غو ر سے د یکھا،اسے کو ئی لڑ کی سمجھ نا آئی،وہا ں تو آدھے آرٹیکل لڑ کیو ں کے تھے اور سب ہی اسے حسین لگ رہی تھیں کیو نکہ اس کا ذاتی خیال بھی یہی تھا کہ عورت بد صورت نہیں ہو تی بس کچھ زیا دہ حسین ہو تی ہیں کچھ کم۔۔۔
یہا ں بھی اسے یہی معمہ نظرآیا
اس نے با س کی طر ف د یکھا
’’سر کو نسا آر ٹیکل؟
وہ جو مشر قی و مغر بی تہذیب پر ہے
اس نے پھر سے رسالہ کھو لاتو وہی صفحہ اس کے سامنے تھا
’’اوہ‘‘
اوہ لڑکی تو سچ میں حسین ہے مگر گھر یلو نہیں لگتی،با س کو چکمہ دے گئی ہے۔۔وہ یہ سوچ کر مسکر انے لگا
جوان ہے حسین ہے۔۔۔ہاٹ مین چاہتی ہو گی
اسے اپنی جوانی پہ ما ن ہو نے لگا ۔اس نے و ہا ں سے اس کا ای میل آ ئی ڈی اپنے مو با ئیل میں نو ٹ کر لیا۔لڑکی کی تصو یر میں ایک غرور حسن بھی تھا۔جو اسے بھاگیا۔وہ عورت کو تب تک عورت سمجھتا تھا جب تک کہ اس کے غرورکو توڑ نا دے۔ اس کے بعد کو ئی عورت اس کے قا بل نہیں ر ہتی۔
’’یک نا شُد ، دو شُد ‘‘
وہ ز یر لب مسکر ا یا۔ با س نیم غنو د گی کے عالم میں وقفے وقفے سے و ہی جملے د ہرا ر ہا تھا ۔اس نے ہمد در دانہ با س پہ ایک نظر ڈا لی ۔ اُٹھا اور ایک سا ئیڈ لیمپ جلا دیا۔ با قی کی تما م رو شنیا ں گل کر د یں اور آہستگی سے کمر ے سے با ہر نکل آیا۔با ہر کھڑے ملا زم کو آ نکھو ں کے اشارے سے سمجھایا کہ صاحب کا خیا ل ر کھنا اور ر سالہ اٹھا ئے با ہر نکل گیا۔اسے د یکھتے ہی ڈرائیور نے گا ڑی سٹا ٹ کی۔وہ بے نیا زی سے، سو چو ں میں گم پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔
’’گھر چلو ‘‘
بس اس نے انہی دو الفا ظ کا سہا را لیا۔ سا رے ر ستے اُسے لڑ کی کے حسن کا غر ور د کھا ئی د یتا ر ہا، جو اس کا اصل حسن تھا ۔حسن بھی کیا شے ہے، غر و ر کے بنا سجتی ہی نہیں ، ٹو ٹے بنا بنتی بھی نہیں۔
عجب فلسفے اس کے اند ر گر د ش کر تے ر ہے۔کہ اسے پتا ہی نہیں چلا کب گھر آگیا اور گھر کا در وازہ بھی کھل گیا،گا ڑی گیر اج میں بھی پہنچ گئی
’’صا حب جی۔۔‘‘
ڈرائیور کی آواز نے اسے چو نکا یا’’ہو ں‘‘
’’اوہ‘‘ ۔۔۔’’اچھا ‘‘ یا ر تم بھی کما ل کے انسان ہو ، بس اسی لیے مجھے اچھے لگتے ہو‘‘
وہ اس کا دل ر کھتے ہو ئے گاڑی سے اتر گیا۔اور اند ر گیا۔اپنے کمر ے کی طر ف بڑھا ۔نیم تا ر یکی تھی۔ گو یا بیو ی سو چکی تھی۔ آج تو اسے کلب بھی جا نا تھی۔ تھک گئی ہو گی۔وہ یہ سو چتے ہو ئے ڈرسنگ روم کی طر ف بڑ ھ گیا ۔کپڑے اتاڑے اور نہا نے چلا گیا۔اب نا ئٹ سوٹ میں وہ خو د کو آ زاد پنچھی محسو س کر رہا تھا۔اپنے قد کے برا بر آئینے کے سا منے کھڑے اس نے اپنے با لو ں میں ہا تھ پھیر نا چا ہا ۔مگر وقت کا سفر کا فی سفر ہو چکا تھا۔اب ان ر یشمی گھنے با لو ں کی جگہ ر یشم کے چند تا ر ر ہ گئے تھے۔ وہ مسکر ایا ، اپنا مو با ئیل اٹھا یا اور سٹڈی روم چلا گیا۔
لیپ ٹا پ آن کیا اس پری وش کو ایک روایتی تعر یفی ای میل کیا ۔ اسے یقین تھا کہ اس کے لفظو ں کا جا دو چلے گا کیو نکہ وہ اس کی تحر یر پڑھ کا سمجھ چکا تھا کہ وہ ملا ئم اور ر یشمی زبا ن کی ر سیا ، کسی خیا لی پر ستا ن کی د یو ی ہے۔
آج وہ بہت تھکن محسو س کر رہا تھا ۔ مسلسل کو ششیں نا کا م ہو ر ہی تھیں۔اس نا کا می نے اسے تھکن سے چو ر کر د یا تھا۔ بس ایک د ستخط کی د یر تھی ۔مگر بس یہی یا ر با س اس کو بے ایما نی سمجھ ر ہا تھا۔
وہ کمر ے میں لیٹتے ہی سو گیا ۔بو جھ تو وہ شا ید پر ی وش کی ای میل میں ا تا ر آیا تھا۔ محبت کے لفظ ، محبت کے جذبے بھی تو کبھی با جھ بن جا تے ہیں۔ انہیں بھی کبھی کو ئی کا ند ھا چا ہئے ہو تا ہے۔ کو ئی خا لی کا ند ھا۔۔۔
صبح د فتر کے کا م د ھندوں۔ سپہر کلب میں میٹنگ تھی۔ادھر چلا گیا۔ ابھی وہ کچھ لمحے کسی سے ملنا نہیں چا ہ ر ہا تھا۔سر دی کی سنہر ی دھوپ میں با ہر کسی د رخت کے نیچے سجی میز کرسیو ں کی طر ف بڑ ھ گیا۔اپنا ٹیب نکا لا اور ای میل چیک کر نے لگا۔پر ی وش کا شکر یہ کے پھولوں سے بھرا ا ی میل آیا ہو ا تھا۔وہ سمجھ گیا با ت بن گئی۔وہ مسکر ایا۔ اور اس کو جوا بی بہا ر ر نگ ای میل کر دیا۔اس نے اب اپنا مو بائیل نمبر ، اپنے عہد ے کے ساتھ ایک اضا فی سر کا ری ذمہ داری کا ا عزازیہ بھی رقم کر دیا۔جس کے مطا بق وہ خواتین کے حقوق کا با سبان بھی مقر ر تھا۔
با ت میل سے فو ن تک آگئی۔ وہ عو رت کو عزت د ینا جا نتا تھا۔اس کی عز ت بھی کر تا تھا۔اور یہ بھی جا نتا تھاکہ عورت کو محبت کے جا ل سے پہلے عزت کے جال میں پھا نستے ہیں۔عورت جتنی مظلو م ہو گی اتنا جلد عز ت کے سنہر ی جا ل میں آ جا ئے گی۔وہ عز ت ہی کی تو پیا سی ہوتی ہے۔اس سے اس کا اعتبا ر بحا ل ہو جا ئے تو محبت کا جا ل اس کے بعد پھینکا جا تا ہے۔اور پھر جا ل خو د بخو د کٹ پھٹ جا تا ہے۔
کے جے نے اسے اپنی با تو ں، اپنے لفظو ں، اپنے لہجے سے ایسے ایسے شاہی لبا س پہنا ئے کہ وہ خو د بخود محبت کی ڈ وری میں بند ھتی چلی گئی۔
ز مینداروں کے مذہبی روایتی رواجو ں کی پا بند سلجھی، پڑ ھی لکھی حسینہ جو محا فظو ں بنا گھر سے نکل بھی نہیں سکتی تھی۔اس سے ملنے ایک بار ملنے کا و عد ہ کر بیٹھی۔اور آخر ٹو ٹی کا نچ کی را ہو ں پہ چل کر اسے ملنے آ گئی
اس نے اسے ایک عالیشا ن ہو ٹل میں بڑی شا ن سے بلا یا تھا ۔د ھیمی مو سیقی،او ر خوابی ر وشنیو ں میں وہ اور ز یا دہ حسین لگ ر ہی تھی۔ اس کے ہا تھ بت تر اشنے والو ں جیسے تھے۔ جا ئے پیتے ہو ئے وہ اسے محبت بھر ی نظر وں سے د یکھتا ر ہا۔ جو نظر یں کہہ ر ہی تھیں ’’آ ؤ تمہیں بانہو ں میں بھر لو ں‘‘
دوسر ی طر ف د ل کہہ ر ہا تھا ’’ کا ش ابھی۔۔۔‘‘
وہ ان نگا ہو ں کی گر می سے ٹپ ٹپ ہو نے لگی۔ وہ نگا ہیں جس میں ہو س نہیں تھی۔ تکر یم ذات تھی، ما ن تھا ، تمنا تھی، بُلا وا تھا۔ اس سے قبل اس نے یہ سب کسی کی نا دا ن آنکھو ں میں نہیں د یکھا تھا۔وہ جا تے جاتے دل کے سا تھ جا ن بھی دے گئی ۔وہ محبت سے اگلی منز ل پہ خو د قد م ر کھ چکی تھی۔
با ت ہو تی ر ہی۔ وہ سمجھ گیا۔وہ آسما نو ں پہ اڑ نا چاہتی ہے۔ جینا چاہتی ہے ،اپنے حصے کی ز ند گی آپ گز ا رنا چاہتی ہے۔ کے جے کا خیال بھی یہی تھاکہ یہ پر ی وش کا حق ہے۔ اسے ملنا چاہیے۔کے جے نے اسے زند گی اور ز ند گی کا سا تھ دینے کا و عد ہ کر لیا۔ اس نے بھی کے جے کی آنکھو ں سے ٹپکتے جذبو ں کا اعتبا ر کر لیا۔کے جے نے اسے دور ۔۔۔یہا ں سے بہت دور لے جا نے کا وعدہ کیا۔اور یقین د لا یا کہ عمر بھر ساتھ دے گا اور کو ئی اس تک نہیں پہنچ سکے گا۔اس کے پا س اتنی طا قت و قوت ہے کہ وہ اس کے خا ندانی غر ور کی تلواریں اس تک نہیں پہنچنے دے گا ۔
چند دن بعد وہ کے جے کے کہنے پر اسی ہو ٹل آگئی۔یہیں سے کے جے اسے اپنی گا ڑی میں بٹھا کر نجا نے کو ن سے جہان کی اور چل پڑ ا۔گھنٹو ں کے سفر کے بعد جب گا ڑی رُکی تو یہ و یرا نے میں بنا ایک طویل و عر یض بنگلہ تھا۔بڑے ر قبو ں،اونچی دیواروں کی ر ہنے والی وہ خود بھی تھی۔یہ ما د یت اسے متا ثر نا کر سکی۔ اس کا ما ن تو وہ ساتھ تھا ،جو اس کے ساتھ ہو تے ہو ئے بھی،سا تھ نا تھا۔اند ر اچانک اک گھن سا تھا جو لگ گیا تھا۔کے جے نے تو شر عی ساتھ کا وعد ہ کیا تھا۔۔۔شر عی ساتھ کے بنا اینٹو ں کی یہ قبر اس کے لیے تنگ ہو ر ہی تھی۔
اسے اب بھی کے جے کی آنکھو ں اور لہجے میں ہو س نظر نہیں آر ہی تھی۔وہ اسے ایک پر تکلف کمر ے میں چھو ڑ کر خود با ہر نکل گیا۔ وہ سہمی ہو ئی تھی۔
رات کو جب وہ لو ٹا تو اس کی نگا ہو ں میں وہی مان، وہی عزت ، وہی آس، وہی تمنا ٹمٹما ر ہی تھی۔ وہ ان جگنو ؤں کے سا منے بے بس ہو گئی۔جوں جو ں رات گہر ی ہو تی گئی، اس کی یہ بے بسی بڑ ھتی گئی۔اور آخر کا ر شب کا ذب پر ی وش اور کے جے کے د رمیا ن سب پر دے اُٹھ گئے۔
زند گی وہ جینا چاہتی تھی۔ مگر جب ہو ش میں آئی تو اسے لگا زند گی کے عوض وہ مر چکی تھی۔کے جے کی آنکھو ں اور رویے میں اب بھی ہو س نہیں تھی۔ اس کی نر م و ر یشمی با تو ں کے ساتھ اس کے لمس میں بھی لطا فت کا احساس تھا۔ اک ما ن تھا جس کے سامنے وہ بے بس تھی۔
یہ انسا نو ں کی کیمسٹر ی بھی کیا شے ہے۔ کسی کے سامنے سیسے کی دیوار ہے تو کسی کے سامنے پا نی کا بہا ؤ۔۔۔
کئی دن یو نہی گز ر گئے۔کے جے صبح چلا جا تا اور رات کو آ تا۔یو نہی ایک ما ہ گز ر گیا اور اسے محسو س ہو ا کہ اس کے جسم کے اند ر جیسے اک اور جسم نے جگہ بنا لی ہے۔اس نے ڈ رتے ڈرتے کے جے کو بتا یا۔وہ یہ سنتے ہی خو شی سے اسے لپٹ گیا۔ لیکن اس کی قبر کی د یوا ریں اس کے ا پنے ہی گر د اور تنگ ہو ر ہی تھیں۔اب تو پسلیو ں کی ہڈ یا ں بھی آپس میں کڑ کرا نے لگی تھیں۔’’یہ روح کس کے نا م سے منسو ب ہوگی‘‘ یہ سوال اس کو اند ر ہی اندر گھو ل ر ہا تھا ۔بظاہر وہ زیا دہ حسین ہو تی جا ر ہی تھی۔مگر اندر ۔۔۔اس عالیشا ن عما رت کے اند ر گھن کاکیڑا گھس گیا تھا۔
کے جے بہت خو ش تھا۔پر ی و ش کو اس با ت پہ بھی حیر ت تھی کہ کے جے کی محبت بڑ ھتی جا ر ہی تھی۔کا لے شیشوں کی گا ڑی میں لیڈی ڈاکٹر بھی آ نے لگی۔اس کا چیک اپ کر تی ، مسکر اتی ،مبا ر ک دیتی ،چلی جا تی۔
وہ اڑنا چا ہتی تھی۔ وہ اڑ تو ر ہی تھی۔پر واز کہا ں کو تھی۔یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ کے جے اسے سوال کر نے کا مو قع ہی نہیں د یتا تھا۔ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹا ل د یتا۔میں خو ش ہو ں ناں۔۔تو تمہیں بھی خو ش ہو نا چاہیے۔ میں تمہیں چھو ڑ کر تو نہیں جا ر ہا نا ں۔۔۔عمر بھر سا تھ کا و عد ہ کیا ہے تو نبھا ؤں گا۔
ابھی تک اس نے ایک و عدے کے سوا سب وعدے نبھا ئے بھی تھے۔ زبا ن کا پکا نکلا۔۔۔اس لیے پر ی وش بے بس ہو کر خا مو ش ہوجا تی۔ یو ں بھی اب وہ بے بس ہو چکی تھی۔ سب کشتیا ں جل چکی تھیں۔ مو ت آگے تھی ،تو پیچھے بھی مو ت ہی تھی۔
نو ما ہ یو نہی آنکھ مچو لی میں ہی گز ر گئے۔ ڈا کٹر گھر پہ ہی ر ہنے لگی۔اور ایک رات کے جے کی صو رت کا ایک بچہ اسی پُرلطف کمر ے میں لیڈی ڈ اکٹر کے ہا تھو ں میں رو ر ہا تھا۔
آج اس کو کے جے کی ضر و ر ت تھی مگر آج کے جے کہا ں تھا؟آج وہ کے جے کے ساتھ اپنی خو شی با نٹنا چاہتی تھی لیکن آج کے جے آیا ہی نہیں۔ پری وش رات بھر اس کی منتظر ر ہی۔ مگر وہ نہیں آیا، ایک دن۔۔۔ دو دن۔۔۔ تین دن۔۔۔ ڈاکٹر بھی پھر آنے کا کہہ کر چلی گئی۔رابطے کی کو ئی صورت نہیں تھی، نا فو ن تھا، نا سیل تھا،نا انٹر نیٹ وہ کس جگہ تھی اسے تو یہ بھی معلو م نہیں تھا، اتنے عرصہ میں کے جے اتنے دن اس سے دور ر ہا بھی نہیں تھا۔ اس کا دل گھبر انے لگا ۔
کے جے آج پھر اسی ہو ٹل میں اپنے با س کے ساتھ تھا۔او ر با س آج بھی یہی کہہ ر ہا تھا
ایک با ر ۔۔۔بس ایک با ر
کسی بھی قیمت پر ۔۔۔
زند گی اس کے قد مو ں میں۔۔۔
قد مو ں میں نچھا ور کر دوں گا۔۔۔
اس نے
پہلی با ر ۔۔۔یا ر پہلی با ر ۔۔۔
کسی نے میر ی ر وح کو ۔۔۔
روح کو چھو ا ۔۔۔ہے۔۔۔
سر اور اگر آپ اس کی ز ند گی کے پہلے مر د نا ہو ئے تو؟کے جے نے سنجید گی سے پو چھا
’’تو ہمیں ۔۔اپنے والی ۔۔کو ن سی۔۔۔کو ن سی ۔۔پہلی جگہ ملی تھی۔۔کیا فر ق پڑتا ہے۔۔۔عورت جس نے منسوب۔۔۔منسو ب ہو تی ہے۔۔۔اس کی نا بھی ہو تو ۔۔۔اسی کی کہلا تی ۔۔۔کہلا تی ہے‘‘
سر میں کو شش کر رہا ہو ں ۔اسے آپ کے قد مو ں کی دھو ل بنا دوں۔۔کر رہا ہو ں کو شش ۔ ۔
گلا س آج بھی گر کر ٹو ٹ گیا تھا ۔آج بھی کے جے انہیں اپنے گھر لے گیا تھا۔آج بھی وہ نیم تا ریک کمر ے میں غنو د گی کے عالم میں تھے۔آج بھی کے جے ڈ را ئیو ر کے سا تھ گھر چلا گیا تھا۔
صبح یا ر با س کے د فتر کے با ہر کے جے کی گا ڑی ر کی۔اس نے اپنے ڈ رائیور کے ہا تھ ایک فائل با س تک پہنچائی۔
یا ر با س نے فائل کھو لی۔اس میں ایک کا غذ پہ مختصر تحر یر ر قم تھی
’’میں نے اس لڑ کی کو ایک گر و ہ سے با زیا ب کر والیاہے۔ وہ میر ی تحویل میں ہے۔سرکاری طو ر پر یہ با ت ابھی خبر نہیں بنی۔ میں اس مجبو ر لڑ کی کو سمجھا کر آپ تک پہنچاسکتا ہوں ۔ وہ سچ میں محبت کے قا بل ہے۔اور اگر آپ مظلو م کو پنا ہ دے بھی د یتے ہیں تو الزام آپ پہ نہیں آئے گابلکہ کر یڈٹ ہو گا کیو نکہ وہ کئی ما ہ سے گھر سے غا ئب تھی۔ مگر ایک فا ئل آپ کی میز پر بھی د ستخط کی منتظر ہے۔‘‘
یا ر باس نے پڑ ھا تو بے چین ہو گیا۔ سار ی عمر نہیں کیا میں نے یہ سب۔ اب آخر ی سال میں۔۔جاب کے آخر ی سال میں۔۔۔ اس نے اپنے ویسٹ انڈین ڈرنک میں پنا ہ تلا ش کی۔ وہ سمجھ نہیں پا ر ہا تھاکیا کر ے۔۔سا ری رات تا روں میں بیت گئی ۔ اگلی صبح وہ د فتر جلدی چلا گیا
اس نے فا ئل پر د ستخط کر د ئیے۔فا ئل کو آ ج پیر لگ گئے تھے۔
رات کوکے جے کا ڈرائیور یا ر با س کو اس بڑی سی قبر میں لے گیا۔ جہا ں اک محبت مسکر ا ر ہی تھی۔ یا ر با س گا ڑی سے اتر نے لگا تو ڈرائیور نے ایک لفا فہ ان کی طر ف بڑ ھا دیا
بڑے صاحب یہ صاب جی نے دیا تھاکہ آپ کو دے دوں۔ یا ر با س نے لفا فہ پکڑ لیااور با ہرنکلا ۔ ٹھنڈی ہو ا محو رقص تھی۔ یا ر با س نے لفا فہ کھو لا ۔کا غذ پہ دو جملے مسکرا ر ہے تھے
’’سر عور ت کو ہمیشہ آنکھو ں کے پا نیو ں میں سنبھا لتے ہیں۔اسے سنبھال کے ر کھئے گا ،بہت قیمتی ہے‘‘