درد تھا حشر بھی ہزار اٹھے
درد تھا حشر بھی ہزار اٹھے
سچ نہ بولیں تو رسم دار اٹھے
اے غم عشق تجھ سے ہار گئے
جان دے کر بھی شرمسار اٹھے
جانے کس درد کے تعلق سے
رات دشمن کو ہم پکار اٹھے
اب تو اس زلف کی گھٹا چھا جائے
دل سے کب تک یوں ہی غبار اٹھے