درد دب جائے کسی طور نہ آنسو آئے
درد دب جائے کسی طور نہ آنسو آئے
جذبۂ دل پہ بتا کس طرح قابو آئے
تیرگی ان کو مٹانے پہ کمر بستہ تھی
پھر بھی جنگل میں چمکتے ہوئے جگنو آئے
دل کے صحرا میں بہت تیج کلانچے بھرتے
شام ہوتے ہی تری یادوں کے آہو آئے
تیرے احساس میں ڈوبوں تو مہک جائے دماغ
تجھ کو سوچوں تو مرے جسم میں خوشبو آئے
اے خدا خیر سلامت رہے گردن میری
میرے کاندھے پہ پھر اک شخص کے بازو آئے
کچھ تو ہو ایسا مرے دوست کہ یہ رات کٹے
چین بیمار کے دل کو کسی پہلو آئے