کہیں تو انتہا بھی ہو کسی کے انتظار کی
کہیں تو انتہا بھی ہو کسی کے انتظار کی
جئیں گے اور کب تلک یہ زندگی ادھار کی
ملے گی فتح یا شکست وقت ہی بتائے گا
میں لڑ رہا ہوں زندگی سے جنگ آر پار کی
بھٹک رہے تھے مدتوں سے ہم بھی جسم و جاں لیے
اسے بھی ایک عمر سے تلاش تھی شکار کی
سمجھ سکے نہ ہم کبھی کسی کی بے یقینیاں
بھری ہوئی تھی آنکھ میں تو دھول اعتبار کی
جنوں ہوا تڑپ ہوئی خلش ہوئی کہ غم ہوا
یہ دولتیں ہیں عشق کی یہ نعمتیں ہے پیار کی
قدم مرے جم ہوئے ہیں ایک ہی مقام پر
وہ کھینچ کر چلا گیا لکیر یوں حصار کی
اسے کسی کی طرح کیوں بتا رہے ہو اے پونؔ
مثال ڈھونڈتے ہو کیوں خدا کے شاہکار کی