دائمی ہے عشق اور اک دائمی آواز ہے

دائمی ہے عشق اور اک دائمی آواز ہے
میرے کانوں میں ابھی تک بس وہی آواز ہے


ساتھ میرے رات بھر جو جاگتی آواز ہے
کون جانے یہ تو میری روح کی آواز ہے


ہجر کے لمحوں میں اب تک یہ خبر کب ہو سکی
جاگتی ہوں میں یا کوئی جاگتی آواز ہے


ہجر جیسے وصل میں اس کو سنا تو یوں لگا
موت جیسی زندگی میں زندگی آواز ہے


اجنبی سی منزلوں کی اجنبی سی راہ میں
اک مکمل خواب اور اک خواب سی آواز ہے


آنے والے دور میں شاہینؔ رہنا ہے مجھے
سب کہیں گے یہ وہی اک دکھ بھری آواز ہے