سگریٹ اور پان کا مکالمہ

سگریٹ نے یہ اک پان کے بیڑے سے کہا
تو ہمیشہ سے پری رویوں کے جھرمٹ میں رہا
کون سی ایسی ہیں خدمات تری بیش بہا
خوں بہا کیوں لب و دندان حسیناں سے لیا
تجھ میں کیا لعل لگے ہیں کہ تو اتراتا ہے
بے حجابانہ ہر اک بزم میں آ جاتا ہے


سگریٹ سے جو سنے پان نے یہ تلخ سخن
بولا خاموش کہ اچھا نہیں حاسد کا چلن
جلتے رہنے سے دھواں بن کے مٹا تیرا بدن
تو لگا منہ کو تو غائب ہوئی خوشبوئے دہن
کاغذی پیرہن اور اس پہ تو فریادی ہے
خودبخود غصہ میں جل جانے کا تو عادی ہے


اس پہ سگریٹ نے کہا پان سے یہ کیا ہے ستم
چھاؤں میں پلتا ہے اور تو ہے بڑا سبز قدم
کتھے، چونے پہ، ڈلی پر ترا قائم ہے بھرم
تجھ پہ چاندی کے ورق لپٹیں تو کیا ہے تجھے غم
خاصدانوں کے محافوں میں سفر کرتا ہے
رات دن ماہ جبینوں میں بسر کرتا ہے


پان بولا کہ جلاتا ہے تو کیوں قلب و جگر
ایشیائی میں ہوں، مغرب کا ہے تو سوداگر
کاش تو اپنے گریبان میں منہ ڈالے اگر
تو وہ بے بس ہے کہ ماچس کا جو ہو دست نگر
آگ برسانے میں ساری تری رعنائی ہے
اور یہ چنگاری بھی باہر سے کہیں پائی ہے


بولا سگریٹ کہ بشر شکوہ کناں ہیں تیرے
در و دیوار پہ پیکوں کے نشاں ہیں تیرے
جو لپ اسٹک میں ہیں وہ جلوے کہاں ہیں تیرے
خود تو ہلکا ہے پہ نقصان گراں ہیں تیرے
نہ غذا میں نہ دوا میں ہے تو پھر کون ہے تو
تو ہلاکو ہے کہ تیمور کہ فرعون ہے تو


پان کہنے لگا سگریٹ سے کہ ابلیس لعین
تیری تمباکو سے جاتی ہے بدن میں نکوٹین
تجھ سے پیدا ہوئے امراض نہایت سنگین
بے تمیز اتنا کہ محفل میں جلائے قالین
راکھ سے تیری بھری دیکھتے ہیں ایش ٹرے
کوئی گرنے کو تو گر جائے پر اتنا نہ گرے


جل کے خود سب کو جلا دینا ترا پیشہ ہے
چھپ کے بیٹھی ہے اجل جس میں تو وہ بیشہ ہے
جان لے اپنے ہی عاشق کی جو وہ تیشہ ہے
تیرے پینے سے تو سرطان کا اندیشہ ہے
جو تجھے منہ سے لگائیں گے لہو تھوکیں گے
اور بھی چیزوں کے کش لینے سے کب چوکیں گے


صلح ان دونوں کی آخر میں کرائی میں نے
پان میں ڈال کے تمباکو بھی کھائی میں نے
لب سے سگریٹ کے جو چنگاری اڑائی میں نے
شعر اور فکر کی شمع اس سے جلائی میں نے
پان سے میں نے کہا شان تری بالا ہے
تو ہے نوشہ تو یہ سگریٹ ترا شہبالا ہے