مشاعرہ

مشاعرے میں جو شاعر بلائے جاتے ہیں
بڑے سلیقے سے بودم بنائے جاتے ہیں
وصول ہوتے ہیں پہلے یہ نامہ و پیغام
کہ اے شہنشہ اقلیم حافظؔ و خیامؔ
ہماری بزم ادب کا ہے جشن سالانہ
جلی ہے شمع سخن رقص میں ہے پروانہ
گھٹا جو شعروں کی چاروں طرف سے آئی ہے
وہ فلم کے بھی ستارے سمیٹ لائی ہے
گزشتہ سال سنا جس نے آپ کو یہ کہا
نہ شعلے میں یہ کرشمہ، نہ برق میں ادا
اور اب کے سال بھی خود دیکھ لیں گے یہ سرکار
کہ گونجتے ہیں عقیدت سے کوچہ و بازار
روانہ کر دیں کرائے کی گر ضرورت ہے
''وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے''
ہمارے شہر میں اردو ادب کا دنگل ہے
یہ شہر شعر کا اور شاعروں کا جنگل ہے
اب اس پہ شاعر شیریں نوا کو ہے یہ گماں
کہ میرے شعلے سے روشن ہوئی ہے شمع بیاں
ادھر سے منتظم اک سوچ اور بچار میں ہے
اسے خبر ہے کہ شاعر کس انتظار میں ہے
بلانے کے لیے اصرار بھی وہ کرتا ہے
کرایہ لے کہ نہ پھر آئے اس سے ڈرتا ہے
بنا کے لکھتا ہے دعوت کا اس طرح مکتوب
مشاعرے میں دیا جائے گا جو ہے مطلوب
غرض بلاتے ہیں وہ شاعروں کو حیلے سے
پیام آتے ہیں احباب کے وسیلے سے
جو شعر سننے کو اپنے گھروں سے آتے ہیں
وہ سب بٹیر لڑانے کا لطف اٹھاتے ہیں
وہ جانتے ہیں کہ شاعر ہے ایک مرغ عجیب
اگر گلا ہے تو شاعر، نہیں گلا تو ادیب
یہ سوچتا ہے چلو قسمت آزما دیکھیں
سلوک ہوتا ہے اوروں کے ساتھ کیا دیکھیں
بہت سے اور بھی شاعر وہاں پر آئیں گے
چلو کہ مرگ رقیباں کا لطف اٹھائیں گے
ہیں کچھ پلے ہوئے شاعر کچھ ان میں خود رو ہیں
پرانے گھاگ ہیں کچھ ان میں شاعر نو ہیں
وہ دیدنی ہے اگر ہو کچھ ان میں ہنگامہ
کہ اس اکھاڑے کا ہر پہلواں ہے علامہ
ستاتے رہتے ہیں شاعر کو ایسے اندیشے
یہاں تلک کہ نکل آئیں رشتے اور ریشے
تعلقات سے آخر کو ہو کے وہ مجبور
مشاعرے کو چلا جیسے کام پر مزدور
کسی سے قرض لیا اور کسی کی منت کی
غرض کہ شاعر آتش نوا نے رحلت کی
پھنسا ہے اس لیے پھندے میں شاعر سادہ
کہ منتظم بھی تھے ہشیار یہ بھی آمادہ
وہ آ گیا ہے اٹھا کر ہزار دشواری
چلے جلو میں اسے لے کے اس کے درباری
کسی کے ہاتھ میں پان اور کسی کے ہاتھ میں ہار
ہر اک یہ کہتا ہے زحمت بہت ہوئی سرکار
مشاعرے میں قدم رنجہ آپ فرمائیں
تو اہل ذوق نشستوں میں آ کے بھر جائیں
تڑپ رہے تھے جو سننے کے واسطے اشعار
مشاعرے کے لیے ان کے پاس ہیں درکار
ٹکٹ خرید کے جو اہل ذوق آئے ہیں
وہ آخری صفوں میں خود بخود سمائے ہیں
معززین جو ذوق ادب سے خالی ہیں
ریزرو ان کے لیے اگلی صف کرا لی ہیں
یہ اس لیے کہ نظر میں وہ آپ کی بھی رہیں
جو شعر وہ نہ سمجھ پائیں آپ وہ نہ پڑھیں
مشاعرے میں خواتین بنتی ہیں سوئیٹر
سنبھل کے بیٹھے ہیں شاعر کی تاک میں ہوٹر
پڑھا مشاعرہ شاعر نے اہتمام کے ساتھ
غزل سنائی ترنم کی دھوم دھام کے ساتھ
کسی نے واہ کہا اور کسی نے ہوٹ کیا
مشاعرے کو یہ سمجھا کہ میں نے لوٹ لیا
اسی پہ پھولا ہوا ہے واہ واہ ہوئی
تمام رات کٹی نیند بھی تباہ ہوئی
یہ محفل آ ہی گئی روز و شب کی سرحد پر
جناب صدر بھی اب سو چکے ہیں مسند پر
جو سامعین ہیں ان پر بھی نیند طاری ہے
سواری اس کو ملی جس پہ فضل باری ہے
جو منتظم تھے ستاروں کے ساتھ ڈوب گئے
گئے وہ شاعروں سے چھپ کے اور خوب گئے
نمود صبح سے جب منتشر ہوئی محفل
اکیلا رہ گیا شاعر غریب شہر و خجل
مشاعرہ بہ جز انداز ہاؤ ہو کیا ہے
''تمہارے شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے''