چھوٹے بڑے

چھوٹا سا ایک بیج اگر ہے تو کیا ہوا
کتنا بڑا درخت ہے اس میں چھپا ہوا
دھرتی میں ڈال دیتا ہے جب وقت پر کسان
پھر دیکھنے کی ہوتی ہے اس بیج کی اٹھان
سنسار جی رہا ہے اسی کام کاج سے
کتنوں کے پیٹ بھرتے ہیں اس کے اناج سے
چھوٹے سے تل میں آنکھ کے اتنی بڑائی ہے
دریا ہوں یا پہاڑ ہوں سب کی سمائی ہے
پھولوں کا اور چاند ستاروں کا رنگ روپ
دو آنکھیں دیکھتی ہیں ہزاروں کا رنگ روپ
پھیلا ہے سارے گھر میں اجالا چراغ ایک
گن کتنے ہیں دماغ میں اور ہے دماغ ایک
مل جل کے ایک پانی کا دریا بہاتی ہیں
بوندیں ہیں چھوٹی چھوٹی جو ساگر بناتی ہیں
یہ میز پر تمہاری جو چھوٹی سی ہے کتاب
چھوٹی سی اس کتاب میں لاکھوں کا ہے حساب
چھوٹا سا دل ہے اس میں امنگیں بڑی بڑی
دل اور بڑھ گیا کوئی مشکل جو آ پڑی
چھوٹی سی عمر میں جو ارادے رہے کڑے
دنیا میں تم بھی کام کرو گے بڑے بڑے