چھینک
میں نے پوچھا حکیم دادا سے
چھینک آخر کہاں سے آتی ہے
مسکرا کر جواب انہوں نے دیا
ناک کے درمیاں سے آتی ہے
میں نے ان سے کہا کہ دادا جان
اس سے مطلب تو حل نہیں ہوتا
تب وہ بولے کہ ناک کی جڑ میں
ایک ہوتا ہے چھینک کا کھوتا
چھینک رہتی ہے اپنے کھوتے میں
اپنے انڈے اسی میں دیتی ہے
باہر آنا ہو جب کبھی اس کو
ایک بھرپور اڑان لیتی ہے
چھینک کو چھیڑتے بھی ہیں کچھ لوگ
لے کے نسوار ڈال کر بتی
اس سے وہ کلبلا کے اٹھتی ہے
زور سے جھاڑتی ہے دولتی
جب نکلتے ہیں چھینک کے بچے
آدمی کو زکام ہوتا ہے
آنکھ جلتی ہے ناک بہتی ہے
سانس لینا حرام ہوتا ہے
سن کے یہ داستان وحشت ناک
ناک میں چیونٹیاں سی رینگ گئیں
میرا سارا وجود ڈول گیا
ایک بھونچال آ گیا ہاچھیں