چل رہے ہیں وہ ایسی شان سے آج
چل رہے ہیں وہ ایسی شان سے آج
جیسے آئے ہوں آسمان سے آج
آستیں میں جو ان کی تھا کل تک
تیر نکلا ہے وہ کمان سے آج
شمع کے ارد گرد پروانے
ہاتھ دھوئیں نہ اپنی جان سے آج
اپنا سب کچھ لٹا کے ہوش آیا
شیخ جی مل رہے ہیں خان سے آج
گل کھلائیں گے کیا ابھی کچھ اور
لگ رہے ہیں وہ مہربان سے آج
کر رہے ہیں جو وعدۂ فردا
پھر گئے اپنی وہ زبان سے آج
نہ مٹا دے وہ ان کا نام و نشاں
آہ نکلی ہے جو زبان سے آج
بھول بیٹھے ہیں اپنی جو اوقات
گر پڑیں وہ نہ آسمان سے آج
کہہ رہے ہیں وہ آ کے برقیؔ سے
جاؤ نکلو مرے مکان سے آج