چاندنی میں رخ زیبا نہیں دیکھا جاتا

چاندنی میں رخ زیبا نہیں دیکھا جاتا
ماہ و خورشید کو یکجا نہیں دیکھا جاتا


یوں تو ان آنکھوں سے کیا کیا نہیں دیکھا جاتا
ہاں مگر اپنا ہی جلوہ نہیں دیکھا جاتا


دیدہ و دل کی تباہی مجھے منظور مگر
ان کا اترا ہوا چہرہ نہیں دیکھا جاتا


ضبط غم ہاں وہی اشکوں کا تلاطم اک بار
اب تو سوکھا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا


زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں
مجھ سے اب خون تمنا نہیں دیکھا جاتا


اب تو جھوٹی بھی تسلی بسر و چشم قبول
دل کا رہ رہ کے تڑپنا نہیں دیکھا جاتا