بنت ماہتاب

سیاہ زلف کہ برسات کی ہو جیسے گھٹا
مزاج صبح درخشاں تری جبیں کی ضیا
حسین گالوں پہ بکھرا ہوا وہ رنگ حیا
نمی وہ ہونٹوں کی جس میں نبات‌ و عسل گھلا
نہ کیوں بھلا میں تجھے بنت ماہتاب کہوں
جو آنکھ نرگس شہلا کی آبرو لے لے
پلک نہ جس پہ کبھی اشک مضطرب کھیلے
چھوئے جو چاند کو تو ہاتھ ہوں ترے میلے
ہر ایک انگ حسیں کس کا ذکر ہو پہلے
تجھے میں جان جہاں رشک آفتاب کہوں
وہ جزر و مد ترے سینہ کا اور وہ جذبات
ہیں میرے واسطے وحشت خروش یہ لمحات
تری زبان کی جنبش میں سینکڑوں نغمات
وہ دل پسند خصائل وہ دل نشیں عادات
نہ کیوں بھلا میں تجھے حاصل شباب کہوں
یہی کہوں کہ ملی تجھ کو حسن کی معراج
خوشا نصیب جو کہلائے دلبر سرتاجؔ
تری جبیں کا عرق رشک نیلم و پکھراج
ترے جمال نے گلشن سے لے لیا ہے خراج
ترے وجود کو میں وجہ انقلاب کہوں