بگڑنے والا کسی دن سنور ہی جائے گا

بگڑنے والا کسی دن سنور ہی جائے گا
مزاج دوست بالآخر سدھر ہی جائے گا


مریض عشق ابھی بیکلی میں ہے لیکن
بخار ایک دن اس کا اتر ہی جائے گا


جو پھول آج سر شاخ ہے مہکتا ہوا
وہ ایک موج صبا میں بکھر ہی جائے گا


گزر رہی ہے پریشان زندگی لیکن
چلے چلو کہ یہ رستہ گزر ہی جائے گا


اسی خیال سے نیکی ضرور کرتی ہوں
کہ بوند بوند سے تالاب بھر ہی جائے گا


جو گر کے راہ میں اٹھنے کا عزم رکھتا ہے
وہ پار آگ کا دریا بھی کر ہی جائے گا


یہ سوچ کر ہی روابط میں عجز بھی رکھنا
ہے جس کی خاک جہاں کی ادھر ہی جائے گا


سبیلہؔ خواب میں وہ سیر کو اگر نکلے
اڑن کھٹولے پہ پریوں کے گھر ہی جائے گا