بھیگا ہوا ہے آنچل آنکھوں میں بھی نمی ہے
بھیگا ہوا ہے آنچل آنکھوں میں بھی نمی ہے
پھیلا ہوا ہے کاجل آنکھوں میں بھی نمی ہے
برسے گا آج کھل کر بے چین و مضطرب ہوں
چھایا ہے غم کا بادل آنکھوں میں بھی نمی ہے
کیسی عجیب حالت طاری ہوئی ہے دل پر
ہوں منتظر مسلسل آنکھوں میں بھی نمی ہے
مدت کے بعد آیا دنیائے دل میں کوئی
صحرا ہوا ہے جل تھل آنکھوں میں بھی نمی ہے
یہ خود سپردگی کا ہے اک عجیب عالم
خوابوں کا جیسے جنگل آنکھوں میں بھی نمی ہے
محسوس ہو رہا ہے اک جال میں ہوں کب سے
یہ عشق ہے کہ دلدل آنکھوں میں بھی نمی ہے
اک حرف حق کے بدلے چڑھتے ہیں کتنے سولی
شہر وفا ہے مقتل آنکھوں میں بھی نمی ہے
اک دن سخن کی ملکہ بن جاؤ گی سبیلہؔ
پھر آج کیوں ہو بے کل آنکھوں میں بھی نمی ہے