بیابان بصرہ

تو پھر ابا نہیں آئے
فقیر آیا نہ مٹھی بھر اناج آیا


بدل دیتا ہے رخ باتوں کا جیسے بے خیالی میں
وہ جھیلیں درمیاں آتی ہیں
جو جلے چمکتے ابر پاروں نرکلوں نیلوفروں سے جا بجا آباد
کہیں نیلم کہیں لعل و زمرد سے جو مالا مال
کسی رت میں دہکتی دھول کی جاگیر سوکھا تال


مگر ابا جو کہتے تھے
وہاں نہریں روانی میں ہیں بارہ ماس
چوڑے پاٹ پکے گھاٹ
تناور پیڑ جن کے نیچے کھری چارپائی
کش پہ کش حقے کے
یوں اپنے وطن کے ٹھاٹ
وطن ان کا ہمارے ہی وطن کا ایک قریہ تھا
تو پھر ابا نہیں آئے
کہانی کار کی الجھن


کہ سننے والا سن کر ان سنی کرتا ہے
جیسے سارا نقشہ دیکھا بھالا ہو اس کا
اسے بس وقفہ وقفہ سے لطیفوں کی طلب
پھر ان کو گہرے پن سے پی جانا
اسے عادت کہ تھامے ہاتھ ان کا
جو کسی ڈھلوان سے نیچے اترتے ہیں تو ڈرتے ہیں
مگر اک اضطراری سی زقند اپنی
ازل سے جو ملامت کیش کم آزار محنت کش
اچانک درمیاں حائل


وہ رنجش کو بھلا دینے میں دریا دل
مگر اس بات کا ابا جو کہتے تھے مرا بیٹا سپاہی ہے
نہیں قائل
اسی کی ہم نوا ہیں وہ گزر گاہیں
گڑھوں ٹیلوں چٹانوں سے عبارت
جن سے ہم اکثر گزرتے ہیں
ہوائیں اس کو روتی ہیں
تو آنسو دور
تارا منڈلوں میں جا بکھرتے ہیں