بخت کو رویا کئے اور آشیاں دیکھا کئے

بخت کو رویا کئے اور آشیاں دیکھا کئے
بجلیاں گرتی رہیں ہم بے زباں دیکھا کئے


التفات یار شکل دشمناں دیکھا کئے
رات بھر محفل میں سوئے آسماں دیکھا کئے


کر دیا صیاد نے قید قفس تو کیا ہوا
ہم اسیری میں بھی خواب گلستاں دیکھا کئے


پتے پتے سے خزاں نے کھینچ لی جان بہار
گلستاں لٹتا رہا اور باغباں دیکھا کئے


غیر اس کی بزم میں آتے رہے جاتے رہے
ہم بڑی حسرت سے روئے پاسباں دیکھا کئے


رفتہ رفتہ جان بھی نذر الم کرنی پڑی
ہر مسرت جب نصیب دشمناں دیکھا کئے


مٹنے والوں کے لئے اسباب کی حاجت نہیں
کیا کہیں ہم کیوں کسی کا آستاں دیکھا کئے


بخت نے کب ایک حالت پر ہمیں رہنے دیا
عمر بھر ہم انقلابات جہاں دیکھا کئے


ان کی آنکھوں ان کے دل کو آفریں صد آفریں
دوست بن کر جو مری بربادیاں دیکھا کئے


وجہ کچھ ہو ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے منیرؔ
روز و شب بربادیٔ ہندوستاں دیکھا کئے