بغیر اپنے کسی مطلب کے الفت کون کرتا ہے
بغیر اپنے کسی مطلب کے الفت کون کرتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں بے لوث چاہت کون کرتا ہے
گوارا لطف فرمانی کی زحمت کون کرتا ہے
محبت کرنے والے سے محبت کون کرتا ہے
کبھی آئینہ لے کر حسن سے اپنی ذرا پوچھو
نظر کو دل کو پابند محبت کون کرتا ہے
محبت میں بھی کرتا ہوں محبت تم بھی کرتی ہو
مگر دونوں میں منہ دیکھی محبت کون کرتا ہے
شریک زندگی ہو کر مرا تم ساتھ کیا دو گی
کسی کے رنج پر قربان راحت کون کرتا ہے
تمہیں زعم محبت ہے مجھے بھی ہے مگر اے جاں
تم اپنی دل سے ہی پوچھو محبت کون کرتا ہے
جوانی کے نکھرتے حسن کی انداز سے پوچھو
مرے خوابیدہ جذبوں سے شرارت کون کرتا ہے
غلط الزام ہے مجھ پر مرے برباد ہونے کا
خود اپنے واسطے پیدا مصیبت کون کرتا ہے
ٹٹولو اپنے دل کو اور اپنے دل سے ہی پوچھو
کہ یہ میرے لئے سامان وحشت کون کرتا ہے
غرض مندی تک اے افضلؔ محبت سب کو ہوتی ہے
محبت آج کل حسب محبت کون کرتا ہے