بچپن
تھامے ہاتھ اپنے ابو کا
کمسن بچہ بھولا بھالا
گھر کے پاس ہی باغیچے میں
صبح سویرے سیر کو آیا
باغیچے میں ہریالی تھی
غنچہ غنچہ مہک رہا تھا
شاخوں پر گل جھوم اٹھتے تھے
چھیڑتا تھا جب ہوا کا جھونکا
دیکھ کے دل کش منظر بچہ
دل ہی دل میں اپنے خوش تھا
مخمل جیسی گھاس پہ اس نے
موتیوں کو جب بکھرے دیکھا
ابو کی پھر چھوڑ کے انگلی
دوڑ کے موتی چننے پہنچا
اس کے ابو نے جب دیکھا
پوچھا کیا کرتے ہو بیٹا
کہنے لگا وہ کمسن بچہ
چنتا ہوں میں موتی ابا
موتی چٹکی سے وہ اٹھاتا
پانی تھا پانی ہو جاتا
ابو نے معصوم ادا پر
گود میں لے کر خوب ہی چوما
اور یہ پھر بچے کو بتایا
موتی قطرہ ہے شبنم کا
چاہے جتنی کوشش کر لو
ہاتھ پہ لیکن آ نہ سکے گا
کاش افقؔ معصوم بنیں ہم
بچپن پھر لوٹ آئے گا اپنا