بچپن کا گیت

چھوتی میں اس مست پون کو
کاش میں کوئی پنچھی ہوتی
آسماں ہوتا سائباں میرا
کسی شجر پر رہتی ہوتی
ان پھولوں سے ان کلیوں سے
اپنی باتیں کہتی ہوتی
نیل گگن میں پر پھیلائے
پہروں بس میں اڑتی ہوتی
میرے ہوتے دوست نرالے
مور کبوتر تیتری ہوتی
ان کے ساتھ میں ہنستی بولتی
دانا دنکا چگتی ہوتی
کتنی خوش قسمت ہے چڑیا
کاش میں اس کے جیسی ہوتی