باز بھی آؤ یاد آنے سے
باز بھی آؤ یاد آنے سے
کیا ملے گا ہمیں ستانے سے
خون دل سے دیے جلائے ہیں
ہو کے گزرو غریب خانے سے
کیسی بے رونقی ہے محفل میں
ایک اس کے یہاں نہ آنے سے
در دل وا کیا تو وہ آئے
کون آتا ہے یوں بلانے سے
تجھ سے بچھڑے تو کب یہ سوچا تھا
اس قدر ہوں گے بے ٹھکانے سے
ہم تو حیران ہیں کہ کیوں ہم پر
ظلم ہے اور ہر بہانے سے
رہنے والا ہی جب نہ ہو آذرؔ
فائدہ کیا ہے گھر سجانے سے