Zaheer Kashmiri

ظہیر کاشمیری

ظہیر کاشمیری کی غزل

    یہ کاروبار چمن اس نے جب سنبھالا ہے

    یہ کاروبار چمن اس نے جب سنبھالا ہے فضا میں لالہ و گل کا لہو اچھالا ہے ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے ہجوم گل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو زمین صحن چمن آج بھی جوالا ہے ہمارے عشق سے درد جہاں عبارت ہے ہمارا عشق ہوس سے بلند و بالا ہے سنا ہے آج کے دن ...

    مزید پڑھیے

    لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا

    لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخ رو ہوئے اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا اپنے گلے میں اپنی ہی ...

    مزید پڑھیے

    میں ہوں وحشت میں گم میں تیری دنیا میں نہیں رہتا

    میں ہوں وحشت میں گم میں تیری دنیا میں نہیں رہتا بگولا رقص میں رہتا ہے صحرا میں نہیں رہتا بڑی مدت سے تیرا حسن دل بن کر دھڑکتا ہے بڑی مدت سے دل تیری تمنا میں نہیں رہتا یہ پانی ہے مگر مژگاں کی شاخوں پر سلگتا ہے یہ موتی ہے مگر دامان دریا میں نہیں رہتا وہ جلوہ جو سکوت بزم یکتائی میں ...

    مزید پڑھیے

    دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو

    دل مر چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو یا ہنس پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو اب حسن کے مزاج سے واقف ہوا ہوں میں اک بھول تھی جو تم سے کہا تھا وفا کرو دل بھی صنم پرست نظر بھی صنم پرست کس کی ادا سہو تو کسے رہنما کرو جس سے ہجوم غیر میں ہوتی ہیں چشمکیں اس اجنبی نگاہ سے بھی آشنا کرو اک سوز اک ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بس نہ چلا جذبۂ خود کام کے آگے

    کچھ بس نہ چلا جذبۂ خود کام کے آگے جھکنا ہی پڑا اس بت بدنام کے آگے اک اور بھی حسرت ہے پس حسرت دیدار اک اور بھی آغاز ہے انجام کے آگے آ اور ادھر کوئی تجلی کی کرن پھینک بیٹھے ہیں گدا تیرے در و بام کے آگے یہ عشق ہے بازیچۂ اطفال نہیں ہے کچھ اور بھی ہے کوچۂ اصنام کے آگے یوں ان کی جفاؤں ...

    مزید پڑھیے

    فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے

    فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے ایک پر پیچ غنا ایک حریری نغمہ ہائے وہ حسن کہ جنگل کی صدا ہو جیسے عشق یوں وادئ ہجراں میں ہوا محو خرام خارزاروں میں کوئی آبلہ پا ہو جیسے عارضوں پر وہ ترے تابش پیمان وفا چاندنی رات کے چہرے پہ حیا ہو جیسے اس طرح ...

    مزید پڑھیے

    عشق اک حکایت ہے سرفروش دنیا کی

    عشق اک حکایت ہے سرفروش دنیا کی ہجر اک مسافت ہے بے نگار صحرا کی ان کے روبرو نکلے نطق و لفظ بے معنی بات ہی عجب لیکن خامشی نے پیدا کی وقت کے تسلسل میں ہم بہ رنگ شعلہ تھے عمر یک نفس میں بھی روشنی تھے دنیا کی ہم کو سہل انگاری غرق کر چکی ہوتی ہمت آفریں نکلی لہر لہر دریا کی یوں تو وہ ...

    مزید پڑھیے

    آندھیاں اٹھیں فضائیں دور تک کجلا گئیں

    آندھیاں اٹھیں فضائیں دور تک کجلا گئیں اتفاقاً دو چراغوں کی لویں ٹکرا گئیں آہ یہ مہکی ہوئی شامیں یہ لوگوں کے ہجوم دل کو کچھ بیتی ہوئی تنہائیاں یاد آ گئیں اس فضا میں سرسراتی ہیں ہزاروں بجلیاں اس فضا میں کیسی کیسی صورتیں سنولا گئیں اے خزاں والو! خزاں والو! کوئی سوچو علاج یہ ...

    مزید پڑھیے

    مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا

    مرنا عذاب تھا کبھی جینا عذاب تھا میرا مشیر عشق سا خانہ خراب تھا دل مر مٹا تلاوت رخسار یار میں مرحوم طفلگی سے ہی اہل کتاب تھا سوچا تو اس حبیب کو پایا قریب جاں دیکھا تو آستیں میں چھپا آفتاب تھا وہ بارگاہ میری وفا کا جواز تھی اس آستاں کی خاک مرا ہی شباب تھا میری ہر ایک صبح تھی ...

    مزید پڑھیے

    عارض شمع پہ نیند آ گئی پروانوں کو

    عارض شمع پہ نیند آ گئی پروانوں کو خواب سے اب نہ جگائے کوئی دیوانوں کو ان کو معلوم ہے رندوں کی تمنا کیا ہے عکس رخ ڈال کے بھر دیتے ہیں پیمانوں کو اے دل زار ادھر چل یہ تذبذب کیا ہے وہ تو آنکھوں پہ اٹھا لیتے ہیں مہمانوں کو ہو گئے صاف عیاں روح و بدن کے ناسور روشنی مار گئی آج کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3