ظفر محمود ظفر کی غزل

    خزاں کے دوش پہ رکھتا ہے وہ بہار کا رنگ

    خزاں کے دوش پہ رکھتا ہے وہ بہار کا رنگ عجب ہے اس کی نگاہوں میں انتظار کا رنگ عجب ہے رسم وفا اور اعتبار کا رنگ کہ دل میں بن کے دھڑکتا ہے اس کے پیار کا رنگ سکون دل کا ٹھکانا کہیں نہ مل پایا بسا ہوا ہے نگاہوں میں جو دیار کا رنگ لبوں پہ جھوٹا تبسم نمی سی آنکھوں میں عیاں ہے چہرے سے اس ...

    مزید پڑھیے

    زہر اک دوجے کے اندر بو رہا ہے آج کل

    زہر اک دوجے کے اندر بو رہا ہے آج کل کس قدر زہریلا انساں ہو رہا ہے آج کل شہر اپنا لوگ اپنے اور اپنا گھر بھی ہے آدمی کیوں پھر بھی تنہا ہو رہا ہے آج کل وقت سے پہلے مرے بچے بڑے ہونے لگے اک عجب سا یہ زمانہ ہو رہا ہے آج کل آئنے کے سامنے جانے سے کتراتے ہیں لوگ آئنہ بھی کتنا تنہا ہو رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کہتا ہے دیوانہ کیا

    کہتا ہے دیوانہ کیا سچ کیا ہے افسانہ کیا مطلب کی اس دنیا میں اپنا کیا بیگانہ کیا تو بھی مسافر میری طرح تیرا میرا ٹھکانا کیا خود میں گم ہیں جب سب لوگ زخموں کا دکھلانا کیا بادل بارش سایہ دھوپ سب سے دھوکا کھانا کیا غم بھی اپنا خوشیاں بھی پھر یہ رونا گانا کیا دل بھی جھکے تو بات ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی چھت نہ کوئی سائبان رکھتے ہیں

    نہ کوئی چھت نہ کوئی سائبان رکھتے ہیں ہم اپنے سر پہ کھلا آسمان رکھتے ہیں بچا کے ہم یہ بزرگوں کی شان رکھتے ہیں نہیں ہے شمع مگر شمع دان رکھتے ہیں گلے بھی ملتے ہیں ہاتھوں کو بھی ملاتے ہیں غضب کی دوری بھی ہم درمیان رکھتے ہیں خدایا تیرا کرم ہے کہ کچھ نہ رکھتے ہوئے ہم اپنی مٹھی میں ...

    مزید پڑھیے

    لہو بہ رنگ دگر حسن لالہ زار میں ہے

    لہو بہ رنگ دگر حسن لالہ زار میں ہے یہ دکھ خزاں میں کہاں تھا جو اب بہار میں ہے جو خشک ہونے لگا ہے تو تازہ کر دے گا کہ زخم زخم مرا سب نگاہ یار میں ہے میں بھول کر بھی نہیں بھول پا رہا ہوں جسے وہ ایک نام جو اب بھی دل فگار میں ہے ڈھلے گا شام کو سورج تو حال پوچھوں گا ابھی زمانہ ہے اس کا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے زخموں کو دھو رہا ہے کوئی

    اپنے زخموں کو دھو رہا ہے کوئی خون ہی خون ہو رہا ہے کوئی قصۂ غم سنجو رہا ہے کوئی موتیوں کو پرو رہا ہے کوئی میری آنکھوں میں پھر سے آنسو ہیں آج پھر دل میں رو رہا ہے کوئی بات ہاں نا کی تھی کسی کے لئے عمر کا بوجھ ڈھو رہا ہے کوئی گلشن عشق کا پتہ دے کر خوشبوؤں میں ڈبو رہا ہے کوئی خواب ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کو اک کہانی دے گیا

    زندگی کو اک کہانی دے گیا ہم سفر اپنی نشانی دے گیا ابر رویا آنسوؤں سے اس قدر سوکھے دریا کو بھی پانی دے گیا رکھ گیا ویرانیٔ گلشن کو پاس اور مجھ کو باغبانی دے گیا جاگتی آنکھوں میں رکھ کر خواب سا زندگانی کو روانی دے گیا بوڑھا برگد پی گیا سورج کی آگ دھوپ کیسی سائبانی دے گیا اپنے ...

    مزید پڑھیے

    جب تلک در پیش کوئی حادثہ ہوتا نہیں

    جب تلک در پیش کوئی حادثہ ہوتا نہیں زندگی کیا ہے ہمیں اس کا پتہ ہوتا نہیں سیدھا رستہ دیکھنے میں یوں تو ہے آساں مگر جب چلو اس پر تو یہ آسان سا ہوتا نہیں سب نے پہنی ہیں قبائیں شہر بھر میں ایک سی کون کیسا ہے یہاں اس کا پتہ ہوتا نہیں ہے یہ نا ممکن نظر آ جائے جلوہ گاہ ناز سجدہ گاہ ...

    مزید پڑھیے

    چڑھا ہوا ہے جو سورج وہ ڈھل بھی سکتا ہے

    چڑھا ہوا ہے جو سورج وہ ڈھل بھی سکتا ہے ہوائے وقت کا رخ تو بدل بھی سکتا ہے خموش لب ہے جو دریا تو خیر ہے سب کی بگڑ گیا تو وہ بستی نگل بھی سکتا ہے چلو اے تشنہ لبو ہم اٹھائیں دست دعا کہ آسمان دعا سے پگھل بھی سکتا ہے مناؤ جشن مکمل بہار آنے پر ابھی نیا سا ہے موسم بدل بھی سکتا ہے وہ پھول ...

    مزید پڑھیے