ظفر امام کی غزل

    بھلے ہی آنکھ مری ساری رات جاگے گی

    بھلے ہی آنکھ مری ساری رات جاگے گی سجا سجا کے سلیقے سے خواب دیکھے گی اجالا اپنے گھروندے میں رہ گیا تو رات کہاں قیام کرے گی کہاں سے گزرے گی ہماری آنکھ سمندر کھنگالنے والی یقین ہے کہ کبھی موتیوں سے کھیلے گی خود اعتمادی ذرا اعتدال میں رکھیو الٹ گئی تو وہ اپنی زبان بھولے گی سہانی ...

    مزید پڑھیے

    دکھ درد مرے پاس بھی جوہر کی طرح ہیں

    دکھ درد مرے پاس بھی جوہر کی طرح ہیں ظلمت میں وہ قندیل منور کی طرح ہیں فٹ پاتھ پہ راتوں کو مزہ ملتا ہے گھر کا ہم دن کے اجالے میں تو بے گھر کی طرح ہیں ٹھہرے ہیں مگر آگے ہے چلنے کا ارادہ ہم لوگ یہاں میل کے پتھر کی طرح ہیں ہر موج پہ ہمت مری پتوار ہے لیکن امید کی آنکھیں تو سمندر کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ نکلی کبھی بادل سے ڈھکی رہتی ہے

    دھوپ نکلی کبھی بادل سے ڈھکی رہتی ہے رات دن اپنی ہی آنکھوں میں جگی رہتی ہے دیکھتے جائیے ملنے کا یہ انداز بھی ایک ہونٹ پہ تھوڑی مروت کی ہنسی رہتی ہے کیا سمندر کو بھی خطرہ ہے کہ اس میں کوئی کلبلاتی ہوئی بے چین ندی رہتی ہے اک نظر دیکھتی جائیں گی ہماری آنکھیں بند دل میں کوئی کھڑکی ...

    مزید پڑھیے

    درد بہتا ہے دریا کے سینے میں پانی نہیں

    درد بہتا ہے دریا کے سینے میں پانی نہیں اس کا چٹان پہ سر پٹکنا کہانی نہیں بات پہنچے سماعت کو تاثیر دے کس طرح لفظ ہیں اور لفظوں میں زور بیانی نہیں ٹوٹ جائے گی دیوار جتنی بھی مضبوط ہو اس کے احساس کی دھوپ بھی سائبانی نہیں کیا سمجھ بوجھ کر ہم بھی اپنا خدا ہو گئے جیسے دنیا ہمیشہ کی ...

    مزید پڑھیے

    اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی

    اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی ڈوبنے والے کو مر جانے کی آسانی ملی حاشیہ بردار سے پوچھا سمندر نے میاں آج تک اک موج بھی تم کو نہ دیوانی ملی سرپھری پاگل ہوا کو روکنا دشوار تھا ایک ہی دن کے لیے تھی اس کو سلطانی ملی تشنہ لب تالاب نے بادل کو پھر دھوکا دیا پھر وہی صحرا وہی صحرا ...

    مزید پڑھیے

    درد کی دھوپ بھرے دل کی تمازت لے کر

    درد کی دھوپ بھرے دل کی تمازت لے کر کیسے جائے کوئی احساس کی ہجرت لے کر پھر کہاں جائیے اب بیٹھیے ماتم کیجے دل کے ہاتھوں میں یہ انمول شرافت لے کر کیا کہیں اب تو نکلنا بھی بہت مشکل ہے اپنے کاندھے پہ خود اپنی ہی ضمانت لے کر پیٹ کی بھوک تماشے پہ تماشہ کر لے ہم تھکیں گے نہیں اس بھوک کی ...

    مزید پڑھیے

    میں ہی دستک دینے والا میں ہی دستک سننے والا

    میں ہی دستک دینے والا میں ہی دستک سننے والا اپنے گھر کی بربادی پر میں ہی سر کو دھننے والا جیون کا سنگیت اچانک انتم سر کو چھو لیتا ہے ہنستا ہی رہتا ہے پھر بھی میرے اندر مرنے والا رشتے بوسیدہ دیواروں کے جیسے ڈھہ جائیں پل میں لیکن میں بھی دیواروں کے ملبے سے سر چننے والا لفظوں کے ...

    مزید پڑھیے

    ناؤ دریا میں چلے سامنے منجدھار بھی ہو

    ناؤ دریا میں چلے سامنے منجدھار بھی ہو ڈوب جانے کے لئے ہر کوئی تیار بھی ہو کیسے روکے گا سفر میں کوئی رستہ جب کہ دل میں اک جوش بھی ہو پاؤں میں رفتار بھی ہو ساری امیدیں اسی ایک سہارے کی طرف ناامیدی کے سفر میں وہی دیوار بھی ہو ہر طرف سے نئے الزام کی بارش مجھ پر اپنے ہونے کا یہ ...

    مزید پڑھیے

    ساحل پر دریا کی لہریں سجدا کرتی رہتی ہیں

    ساحل پر دریا کی لہریں سجدا کرتی رہتی ہیں لوٹ کے پھر آنے جانے کا وعدا کرتی رہتی ہیں کیا جانے کب دھرتی پر سیلاب کا منظر ہو جائے ہر دم یہ مجبور نگاہیں ورشا کرتی رہتی ہیں ان کی نیا بن مانجھی کے پار کرے گی سب دریا کیونکہ ڈھیر دعائیں جیسے پیچھا کرتی رہتی ہیں کس کس منظر پر خود کو ...

    مزید پڑھیے

    میرے اندر کا غرور اندر گزرتا رہ گیا

    میرے اندر کا غرور اندر گزرتا رہ گیا سر سے پانو تک اترنا تھا اترتا رہ گیا بارشوں نے پھر وہی زحمت اٹھائی دیر سے ایک ریگستان ہے کہ پھر بھی پیاسا رہ گیا زندگی بھر آنکھ سے آنسو ندامت کے گرے اور میرے دل کا صفا یوں ہی سادہ رہ گیا پہلی بارش ہی میں تقویٰ کے نشاں سب دھل گئے سر میں اک ٹوٹا ...

    مزید پڑھیے