سر میں سودا بھی وہی کوچۂ قاتل بھی وہی
سر میں سودا بھی وہی کوچۂ قاتل بھی وہی رقص بسمل بھی وہی شور سلاسل بھی وہی بات جب ہے کہ ہر اک پھول کو یکساں سمجھو سب کا آمیزہ وہی آب وہی گل بھی وہی ڈوب جاتا ہے جہاں ڈوبنا ہوتا ہے جسے ورنہ پیراک کو دریا وہی ساحل بھی وہی دیکھنا چاہو تو زخموں کا چراغاں ہر سمت محفل غیر وہی انجمن دل ...