جب بھی ماضی کے نظارے کو نظر جائے گی
جب بھی ماضی کے نظارے کو نظر جائے گی شام اشکوں کے ستاروں سے سنور جائے گی کیا بتاؤں کہ کہاں تک یہ نظر جائے گی ایک دن حد تعین سے گزر جائے گی جب بھی اس کے رخ روشن کا خیال آئے گا چاندنی دل کے شبستاں میں اتر جائے گی ہر ستم کرنے سے پہلے یہ ذرا سوچ بھی لے میں جو بکھرا تو تری زلف بکھر جائے ...