Yusuf Rahat

یوسف راحت

یوسف راحت کی نظم

    وطن

    ترے کسان کے سینے میں حسرتوں کا ہجوم تری فضاؤں میں ہر بیٹی ماں بہن مغموم ترے غریب کی آنکھوں میں سیل اشک رواں تو اک وطن ہے کہ اجڑے ہوئے وطن کا نشاں کھنچی ہوئیں ترے ماتھے پہ اس قدر شکنیں کھڑی ہوئیں ترے سینے پہ اتنی دیواریں بہا ہے کتنا لہو آج تیرے دامن پر خزاں یہ کس نے بچھائی ہے تیرے ...

    مزید پڑھیے

    شانتی

    تمہارے آنگن میں روشنی ہو ہمارے گھر میں بھی زندگی ہو تمہارے بچے بھی مسکرائیں ہمارے بچے بھی رو نہ پائیں تمہیں بھی لب کھولنے کا حق ہو ہمیں بھی کچھ بولنے کا حق ہو تمہاری جنتا بھی پر سکوں ہو ہمیں بھی اک امن کا جنوں ہو تمہیں بھی چاہت کی جستجو ہو ہمیں بھی انسانیت کی خو ہو چلو اک ایسی ...

    مزید پڑھیے

    نوحہ

    زیست اور موت کی سرد و ویران سی دو قیامت نما سرحدیں اور پہلو میں ان سرحدوں کے وہ دھندلی سی بجھتی ہوئی اک لکیر جس کی دہلیز پر آخری سانس لیتے ہوئے روٹھ کر ہم سے کوئی جو اس مختصر فاصلے سے گزر جائے گا لوٹ کر وہ نہیں آئے گا سرد راتوں میں ہم اس کو آواز دیں تو جواباً ہمیں گونج کی صورت اپنی ...

    مزید پڑھیے

    مذہب انسانیت

    ہندو مسلم سکھ عیسائی سب مل کر اک گیت لکھیں گے گیت کی دھن پر عہد کریں گے ساری نفرت بھول کے ہم اک ہو جائیں گے اک دوجے کے دکھڑوں میں ہم کھو جائیں گے تم بھی انساں ہم بھی انساں پیار ہی ہے ہم سب کا ایماں نیا مذہب تشکیل کریں گے اب نہ کوئی بت ہم پوجیں گے جگ میں انساں راج رہے گا یکجہتی کا تاج ...

    مزید پڑھیے