Yasin Ali Khan Markaz

یاسین علی خاں مرکز

یاسین علی خاں مرکز کی غزل

    جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی

    جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی وہاں فکر اپنی نہ تیری رہے گی لجاجت امیروں سے یک دم اٹھا دے قناعت سے اپنی فقیری رہے گی نہ جینے کی خواہش نہ مرنے کا غم ہے جو حالت ہے اپنی وہ ٹھہری رہے گی مجلہ ہوا جب سے دل ہے ہمارا نہ مرقد میں اپنے اندھیری رہے گی گھمنڈ ہر طرح کرنا زیبا نہیں ہے جوانی ...

    مزید پڑھیے

    یاد خدا سے آیا نہ ایماں کسی طرح

    یاد خدا سے آیا نہ ایماں کسی طرح کافر بنے نہ ہم نہ مسلماں کسی طرح کرتے ہو وعدہ آنے کا ہے آنکھ منتظر کب تک گزارے دن یہ ہے مہماں کسی طرح آزاد عشق یار نے ہم کو بنا دیا مال و متاع کا ہوں نہ میں خواہاں کسی طرح پیتے رہو شراب جہاں تک کہ ہو سکے شاغل نہ چھوٹے ساقی کا داماں کسی طرح آ جاویں ...

    مزید پڑھیے

    عیاں ہو آپ بیگانہ بنایا

    عیاں ہو آپ بیگانہ بنایا وجود خاک کا شانہ بنایا تو ہے الفاظ سے ماہر اے واعظ مجھے بے‌ کیف و کم معنیٰ بنایا کیا اظہار جب میں راز حق کو تو عالم مجھ کو رندانہ بنایا ہنسی سے میری اس نے ٹال دی بات میں تھا ہوشیار دیوانہ بنایا مجھے ساقی نے بے منت کے دی مے خمار عشق مردانہ بنایا پکارا ...

    مزید پڑھیے

    ڈھونڈھتا حق کو در بدر ہے تو

    ڈھونڈھتا حق کو در بدر ہے تو وائے اپنے سے بے خبر ہے تو شان حق آشکار ہے تن سے موجد‌ کلّ خیر و شر ہے تو ایک میں کیا وجود جملہ ظہور کل میں خود آپ با اثر ہے تو قدرت کاملہ کو غور تو کر بحر یکتائی کا گہر ہے تو میٹ اپنی خودی خدا کو پا نفع حاصل ہو کیا اگر ہے تو مقتدر آپ ہر سبب کا ہے اس لئے ...

    مزید پڑھیے

    ڈھونڈ ہم ان کو پریشان بنے بیٹھے ہیں

    ڈھونڈ ہم ان کو پریشان بنے بیٹھے ہیں وہ تو پردہ لئے انسان بنے بیٹھے ہیں ذوق حاصل انہیں ہوتا ہے ہر یک صورت سے رنگ‌ و بے رنگی سے ہر آن بنے بیٹھے ہیں چھوڑ مسجد کو گئے دیر میں پوجا کرنے تھے مسلمان وہ رہبان بنے بیٹھے ہیں بات یہ ہے کہ ہیولیٰ سے ہے صورت پیدا ہر یک اجسام میں رحمان بنے ...

    مزید پڑھیے

    عاشقی کے آشکارے ہو چکے

    عاشقی کے آشکارے ہو چکے حسن یکتا کے پکارے ہو چکے اٹھ گیا پردہ جو فی مابین تھا من و تو کے تھے اشارے ہو چکے ہے بہار گلشن دنیا دو روز بلبل و گل کے نظارے ہو چکے چل دیئے اٹھ کر جہاں چاہے وہاں ایک رنگی کے سہارے ہو چکے یاس سے کہہ دیں گے وقت قتل ہم ہم تو اے پیارے تمہارے ہو چکے واصل‌ ...

    مزید پڑھیے

    عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے

    عجب بھول و حیرت جو مخلوق کو ہے خدا کی طلب شرک کی جستجو ہے شراب محبت میں مخمور ہوں میں پیالہ بھرا ہے ملبب سبو ہے پتہ ایک کا دو میں کیوں کر ملے گا جو کثرت فنا ہو تو خود تو ہی تو ہے نہیں غیر کوئی تشخص کا پردہ من و تو فقط غیر کی گفتگو ہے ہے خود آپ موجود ہر یک صفت سے جدائی نہیں اس میں ...

    مزید پڑھیے

    جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں

    جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں مری ذات عین کی عین ہے وہاں دوسری کا نشاں نہیں وہی دو جہاں میں ہے مفتخر جیسے عینیت کی ہوئی خبر وہی حکمراں ہے جہان میں وہاں کفر و دیں کا گماں نہیں رہے غیریت کے حجاب میں جو خدا‌ نما سے نہیں ملے جو خدا کو ان سے طلب کئے رہی بات ان پہ ...

    مزید پڑھیے

    غفلت عجب ہے ہم کو دم جس کا مارتے ہیں

    غفلت عجب ہے ہم کو دم جس کا مارتے ہیں موجود ہے نظر میں جس کو پکارتے ہیں ہم آئینہ ہیں حق کے حق آئینہ ہے اپنا مستی میں اپنی ہر دم دم حق کا مارتے ہیں ہم اپنے آپ طالب مطلوب آپ ہم ہیں اس کھیل میں ہمیشہ ہم خود کو ہارتے ہیں جنت کی ہم کو خواہش دوزخ کا ڈر نہیں ہے بے اصل مفت واعظ ہم کو ...

    مزید پڑھیے

    شرک کا پردہ اٹھایا یار نے

    شرک کا پردہ اٹھایا یار نے ہم کو جب اپنا بنایا یار نے روز روشن کی طرح دیکھا اسے گرچہ منہ اپنا چھپایا یار نے ظاہراً موجود ہے ہر شان سے ہر طرح رخ کو دکھایا یار نے خویش و بیگانہ فقط کہنے کو ہے اپنا دیوانہ بنایا یار نے بندہ بن جانا فقط چھپنے کو ہے گھر کو ویرانہ بنایا یار نے پھیر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2