یوں باغ کوئی ہم نے اجڑتا نہیں دیکھا
یوں باغ کوئی ہم نے اجڑتا نہیں دیکھا مدت سے کسی پھول کا چہرہ نہیں دیکھا اس شہر میں شاید کوئی دل والا نہیں ہے جو حسن کہیں بنتا سنورتا نہیں دیکھا صیاد سے گل کرتے رہے جان کا سودا مالی نے لہو کا کوئی دریا نہیں دیکھا جو سکھ کے اجالے میں تھا پرچھائیں ہماری اب دکھ کے اندھیرے میں وہ ...