Yaqoob Yawar

یعقوب یاور

یعقوب یاور کی غزل

    مسئلوں کی بھیڑ میں انساں کو تنہا کر دیا

    مسئلوں کی بھیڑ میں انساں کو تنہا کر دیا ارتقا نے زندگی کا زخم گہرا کر دیا ڈیڑھ نیزے پر ٹنگے سورج کی آنکھیں نوچ لو بے سبب دہشت زدہ ماحول پیدا کر دیا فکر کی لا‌ مرکزیت جاگتی آنکھوں میں خواب ہم خیالی نے زمانے بھر کو اپنا کر دیا اک شجر کو جسم کی نم سبز گاہوں کی تلاش اور اس تحریک نے ...

    مزید پڑھیے

    سخن کو بے حسی کی قید سے باہر نکالوں

    سخن کو بے حسی کی قید سے باہر نکالوں تمہاری دید کا کوئی نیا منظر نکالوں یہ بے مصرف سی شے ہر گام آڑے آنے والی انا کی کینچلی کو جسم سے باہر نکالوں طلسمی معرکے کہتے ہیں اب سر ہو چکے ہیں ذرا زنبیل کے کونے سے میں بھی سر نکالوں لہو مہکا تو سارا شہر پاگل ہو گیا ہے میں کس صف سے اٹھوں کس ...

    مزید پڑھیے

    جو تو نہیں تو موسم ملال بھی نہ آئے گا

    جو تو نہیں تو موسم ملال بھی نہ آئے گا گئے دنوں کے بعد عہد حال بھی نہ آئے گا مری سخن سرائیوں کا اعتبار تو نہیں جو تو نہیں تو ہجر کا سوال بھی نہ آئے گا اگر وہ آج رات حد التفات توڑ دے کبھی پھر اس سے پیار کا خیال بھی نہ آئے گا شب وصال ہے بساط ہجر ہی الٹ گئی تو پھر کبھی خیال ماہ و سال ...

    مزید پڑھیے

    مری دعاؤں کی سب نغمگی تمام ہوئی

    مری دعاؤں کی سب نغمگی تمام ہوئی سحر تو ہو نہ سکی اور پھر سے شام ہوئی کھلا جو مجھ پہ ستم گاہ وقت کا منظر تو مجھ پہ عیش و طرب جیسی شے حرام ہوئی مرے وجود کا صحرا جہاں میں پھیل گیا مرے جنوں کی نحوست زمیں کے نام ہوئی ابھی گری مری دیوار جسم اور ابھی بساط دیدہ و دل سیر گاہ عام ہوئی تو ...

    مزید پڑھیے

    لرزاں ترساں منظر چپ

    لرزاں ترساں منظر چپ آرمیدہ گھر گھر چپ یہ کیسی ہے راہ بری راہی چپ تو رہبر چپ گوپی چندر ڈوب گیا سہما ہرا سمندر چپ دشمن ایماں پیش نظر اندر ہلچل باہر چپ نقالی پر نازاں تھا شاعر دیکھ کے بندر چپ رات میں کیا کیا عیش ہوئے تنہا میں تھا بستر چپ ہلکی پھلکی ایک غزل محفل برہم یاورؔ چپ

    مزید پڑھیے

    شہر سخن عجیب ہو گیا ہے

    شہر سخن عجیب ہو گیا ہے ناقد یہاں ادیب ہو گیا ہے جھوٹ ان دنوں اداس ہے کہ سچ بھی پروردۂ صلیب ہو گیا ہے گرمی سے پھر بدن پگھل رہے ہیں شاید کوئی قریب ہو گیا ہے آبادیوں میں ڈوب کر مرا دل جنگل سے بھی مہیب ہو گیا ہے کیا کیا گلے نہیں اسے وطن سے یاورؔ کہاں غریب ہو گیا ہے

    مزید پڑھیے

    الاماں کہ سورج ہے میری جان کے پیچھے

    الاماں کہ سورج ہے میری جان کے پیچھے اور سانپ بیٹھا ہے سائبان کے پیچھے خوش گوار موسم پر کامیابیاں مبنی من چلا سمندر ہے بادبان کے پیچھے ہم سے رہ نوردوں کو دشت راس کیا آتا آخرش پلٹنا تھا خاک چھان کے پیچھے چیخ المدد شاید دست غیب آ جائے ناولوں کے لشکر ہیں داستان کے پیچھے تیر کھا ...

    مزید پڑھیے

    روشنی میرے چراغوں کی دھری رہنا تھی

    روشنی میرے چراغوں کی دھری رہنا تھی پھر بھی سورج سے مری ہم سفری رہنا تھی موسم دید میں اک سبز پری کا سایہ اب گلہ کیا کہ طبیعت تو ہری رہنا تھی میں کہ ہوں آدم اعظم کی روایت کا نقیب میری شوخی سبب در بہ دری رہنا تھی خواب عرفان حقیقت کے تمنائی تھے زندگی اور مری راہبری رہنا تھی آج بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنی پشت پر کھلی بہار لے کے چل دیے

    ہم اپنی پشت پر کھلی بہار لے کے چل دیے سفر میں تھے سفر کا اعتبار لے کے چل دیے سڑک سڑک مہک رہے تھے گل بدن سجے ہوئے تھکے بدن اک اک گلے کا ہار لے کے چل دیے جبلتوں کا خون کھولنے لگا زمین پر تو عہد ارتقا خلا کے پار لے کے چل دیے پہاڑ جیسی عظمتوں کا داخلہ تھا شہر میں کہ لوگ آگہی کا اشتہار ...

    مزید پڑھیے