Yaqoob Aamir

یعقوب عامر

یعقوب عامر کی غزل

    چند گھنٹے شور و غل کی زندگی چاروں طرف

    چند گھنٹے شور و غل کی زندگی چاروں طرف اور پھر تنہائی کی ہمسائیگی چاروں طرف گھر میں ساری رات بے آواز ہنگامہ نہ پوچھ میں اکیلا نیند غائب برہمی چاروں طرف دیکھنے نکلا ہوں اپنا شہر جنگل کی طرح دور تک پھیلا ہوا ہے آدمی چاروں طرف میرے دروازے پہ اب تختی ہے میرے نام کی اب نہ بھٹکے گی ...

    مزید پڑھیے

    آتش غم میں بھبھوکا دیدۂ نمناک تھا

    آتش غم میں بھبھوکا دیدۂ نمناک تھا آنسوؤں میں جو زباں پر حرف تھا بیباک تھا چین ہی کب لینے دیتا تھا کسی کا غم ہمیں یہ نہ دیکھا عمر بھر اپنا بھی دامن چاک تھا ہم شکستہ دل نہ بہرہ مند دنیا سے ہوئے ورنہ اس آلودگی سے کس کا دامن پاک تھا جوہر فن میرا خود میری نظر سے گر گیا حرف دل پر بھی ...

    مزید پڑھیے

    نظروں میں کہاں اس کی وہ پہلا سا رہا میں

    نظروں میں کہاں اس کی وہ پہلا سا رہا میں ہنستا ہوں کہ کیا سوچ کے کرتا تھا وفا میں تو کون ہے اے ذہن کی دستک یہ بتا دے ہر بار کی آواز پہ دیتا ہوں صدا میں یاد آتا ہے بچپن میں بھی استاد نے میرے جس راہ سے روکا تھا وہی راہ چلا میں جی خوش ہوا دیکھے سے کہ آزاد فضا ہے بستی سے گزرتا ہوا صحرا ...

    مزید پڑھیے

    اک خلا سا ہے جدھر دیکھو ادھر کچھ بھی نہیں

    اک خلا سا ہے جدھر دیکھو ادھر کچھ بھی نہیں آسماں کون و مکاں دیوار و در کچھ بھی نہیں بڑھتا جاتا ہے اندھیرا جیسے جادو ہو کوئی کوئی پڑھ لیجے دعا لیکن اثر کچھ بھی نہیں جسم پر ہے کون سے عفریت کا سایہ سوار بھاگتا ہے سر سے دھڑ جیسے کہ سر کچھ بھی نہیں ہر نیا رستہ نکلتا ہے جو منزل کے ...

    مزید پڑھیے

    کیا ہوا ہم سے جو دنیا بد گماں ہونے لگی

    کیا ہوا ہم سے جو دنیا بد گماں ہونے لگی اپنی ہستی اور بھی نزدیک جاں ہونے لگی دھیرے دھیرے سر میں آ کر بھر گیا برسوں کا شور رفتہ رفتہ آرزوئے دل دھواں ہونے لگی باغ سے آئے ہو میرا گھر بھی چل کر دیکھ لو اب بہاروں کے دنوں میں بھی خزاں ہونے لگی چند لوگوں کی فراغت شہر کا چہرہ نہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ حال و حوادث کی حکمرانی ہے

    اگرچہ حال و حوادث کی حکمرانی ہے ہر ایک شخص کی اپنی بھی اک کہانی ہے میں آج کل کے تصور سے شاد کام تو ہوں یہ اور بات کہ دو پل کی زندگانی ہے نشان راہ کے دیکھے تو یہ خیال آیا مرا قدم بھی کسی کے لیے نشانی ہے خزاں نہیں ہے بجز اک تردد بے جا چمن کھلاؤ اگر ذوق باغبانی ہے کبھی نہ حال ہوا ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھو زیست فسانہ تمام ہونے تک

    نہ پوچھو زیست فسانہ تمام ہونے تک دعاؤں تک تھی سحر اور شام رونے تک مجھے بھی خود نہ تھا احساس اپنے ہونے کا تری نگاہ میں اپنا مقام کھونے تک ہر ایک شخص ہے جب گوشت نوچنے والا بچے گا کون یہاں نیک نام ہونے تک چہار سمت سے رہزن کچھ اس طرح ٹوٹے کہ جیسے فصل کا تھا اہتمام بونے تک بتا رہا ...

    مزید پڑھیے