Waqar Vasiqi

وقار واثقی

  • 1917

وقار واثقی کی غزل

    تری نظر میں ترے ماسوا نہیں ہوگا

    تری نظر میں ترے ماسوا نہیں ہوگا ترے وجود کا جس دن تجھے یقیں ہوگا جو گھر سے نکلا تو ہر اک کو منتظر پایا خیال تھا کہ کوئی جانتا نہیں ہوگا فریب دیتی ہیں ویرانیاں صدا تو لگا مکان ہے تو یقیناً کوئی مکیں ہوگا خبر نہ تھی کہ ہزار آنکھیں ہیں اندھیرے کی اسے خیال تھا چرچا کہیں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کس قدر وزن ہے خطاؤں میں

    کس قدر وزن ہے خطاؤں میں ذکر رہتا ہے پارساؤں میں واپسی پر اتر گیا چہرہ جا کے بیٹھا تھا ہم‌ نواؤں میں راز کی بات ہے دعا نہ کرو یاد رکھنا ہمیں دعاؤں میں ڈھونڈ شاید ملے پیام ضمیر بوڑھے برگد کی ان چٹانوں میں اپنی تعریف کرنے بیٹھا تھا بات اڑا دی گئی ہواؤں میں چہرے بدلے ہوئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    جس بات کو سن کر تجھے تکلیف ہوئی ہے

    جس بات کو سن کر تجھے تکلیف ہوئی ہے دنیا میں اسی بات کی تعریف ہوئی ہے پیغام مسرت پہ خوشی خوب ہے لیکن سنتے ہیں کہ ہم سایے کو تکلیف ہوئی ہے بگڑے ہوئے کچھ حرف ہیں بے معنی سے کچھ لفظ یہ زیست کے اوراق کی تالیف ہوئی ہے روداد میں ایسی تو کوئی بات نہیں تھی مانو کہ نہ مانو کوئی تحریف ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    صدائے آفریں اٹھی تھی جست ایسی تھی

    صدائے آفریں اٹھی تھی جست ایسی تھی خبر نہ تھی کہ مقدر شکست ایسی تھی نظر ہٹا نہ سکا رائے کس طرح لیتا وہ سب کو دیکھ رہا تھا نشست ایسی تھی اسے خیال یہ گزرا کہ گر گئی دیوار دل حزیں کی صدائے شکست ایسی تھی میں تعینات کے الجھاؤ توڑ ہی بیٹھا صدائے دوست صدائے الست ایسی تھی میں اپنے آپ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے اندر اتر رہا ہوں میں

    اپنے اندر اتر رہا ہوں میں دھیرے دھیرے سدھر رہا ہوں میں نور و ظلمت میں امتیاز نہیں اس کنوئیں میں اتر رہا ہوں میں جس کو دیکھو چرا رہا ہے نگاہ کس گلی سے گزر رہا ہوں میں خود کو اک دن سمیٹنا بھی ہے آج کل تو بکھر رہا ہوں میں چھوڑا اندیشہ ہائے دور دراز جی رہا ہوں کہ مر رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    غیر ممکن تھا یہ اک کام مگر ہم نے کیا

    غیر ممکن تھا یہ اک کام مگر ہم نے کیا تیرے نظارے کو پابند نظر ہم نے کیا آگے چل کر یہ خدا جانے کہاں رہ جائیں غیر بھی چل پڑے جب عزم سفر ہم نے کیا ان خیالات ہی پر ٹوٹ پڑی ہے دنیا جن خیالات کو کل ذہن بدر ہم نے کیا دن خطرناک جزیرہ سا نظر آنے لگا اپنی ہی ذات کا کل شب جو سفر ہم نے کیا یوں ...

    مزید پڑھیے

    خوش نظر کہہ کے ٹال دے مجھ کو

    خوش نظر کہہ کے ٹال دے مجھ کو یا پھر اپنی مثال دے مجھ کو خوش بیانی کا شکریہ لیکن جرأت عرض حال دے مجھ کو تو بھی ہو جائے ہم خیال مرا کوئی ایسا خیال دے مجھ کو عہد حاضر تو نقش ماضی ہے اب نئے ماہ و سال دے مجھ کو نظر آتی نہیں ہے راہ فرار دائرے سے نکال دے مجھ کو تو ہے کیا خود کو جانتا ...

    مزید پڑھیے