خیال دل کو ہے اس گل سے آشنائی کا
خیال دل کو ہے اس گل سے آشنائی کا نہیں صبا کو ہے دعویٰ جہاں رسائی کا کہیں وہ کثرت عشاق سے گھمنڈ میں آ ڈروں ہوں میں کہ نہ دعویٰ کرے خدائی کا مجھے تو ڈھو کے تھا زاہد پر اک نگاہ سے آج غرور کیا ہوا وہ تیری پارسائی کا جہاں میں دل نہ لگانے کا لیوے پھر کوئی نام بیاں کروں میں اگر تیری ...