Wajid Qureshi

واجد قریشی

واجد قریشی کی غزل

    دھوئیں کی اوٹ سے باہر بھی آ گیا ہوتا

    دھوئیں کی اوٹ سے باہر بھی آ گیا ہوتا ہمارے ساتھ اگر رشتۂ ہوا ہوتا اسے بھی شعلگی‌ٔ ربط کی شکایت تھی سلگتی آنکھ کی درزوں میں اور کیا ہوتا جہاں نہ پیڑ اگے تھے نہ آگ ہی برسی وہاں ہمارے لیے کون سا خدا ہوتا میں احتجاج سے باہر بھی سوچتا شاید شب فرار اگر کوئی در کھلا ہوتا تڑپ نہیں نہ ...

    مزید پڑھیے

    لہولہان سمندر بھی دیکھنا ہے ابھی

    لہولہان سمندر بھی دیکھنا ہے ابھی بریدہ حلق پہ خنجر بھی دیکھنا ہے ابھی ابھی سے دشت بلا سے فراغتیں کیسی بلند ہوتا ہوا سر بھی دیکھنا ہے ابھی مصالحت کہاں ہوگی سپاہ شام کے ساتھ زباں کی نوک پہ خنجر بھی دیکھنا ہے ابھی نمیدہ چشم مسافت کی انتہا بھی نہیں اداس نسل کو زد پر بھی دیکھنا ہے ...

    مزید پڑھیے

    جو نہیں کیا اب تک بے حساب کرنا ہے

    جو نہیں کیا اب تک بے حساب کرنا ہے اپنے ہر رویے سے اجتناب کرنا ہے اب تو کام آئے گی بے گمان سفاکی خوش گوار پھولوں کو آفتاب کرنا ہے رنگ اپنی چھتری کا دھوپ نے مٹا ڈالا صبح ہونے سے پہلے پھر خضاب کرنا ہے سرفروش لہروں کی سرفروشیاں کب تک سرفروش لہروں کو زیر آب کرنا ہے راستے ذہانت کے ...

    مزید پڑھیے