Wajid Ameer

واجد امیر

واجد امیر کی غزل

    مت سمجھنا کہ صرف تو ہے یہاں

    مت سمجھنا کہ صرف تو ہے یہاں ایک سے ایک خوب رو ہے یہاں پر ہے بازار حسن چہروں سے جانے کس کس کی آبرو ہے یہاں کیسے آباد ہو یہ ویرانہ وحشت کذب چار سو ہے یہاں آنکھ کی پتلیوں کو غور سے دیکھ تیری تصویر ہو بہو ہے یہاں کیسے تاریخ لکھی جائے گی صرف تلوار اور گلو ہے یہاں تو کہاں ہے خبر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بیچتے کیا ہو میاں آن کے بازار کے بیچ

    بیچتے کیا ہو میاں آن کے بازار کے بیچ اور انا کاہے کو رکھ چھوڑی ہے بیوپار کے بیچ اس گھڑی عدل کی زنجیر کہاں ہوتی ہے جب کنیزوں کو چنا جاتا ہے دیوار کے بیچ شہر ہوتا ہے ستاروں کے لہو سے روشن طشت میں سر بھی پڑے ہوتے ہیں دربار کے بیچ کبھی اس راہ میں پھل پھول لگا کرتے تھے اب لہو کاٹتے ...

    مزید پڑھیے