ہر اک کے دکھ پہ جو اہل قلم تڑپتا تھا
ہر اک کے دکھ پہ جو اہل قلم تڑپتا تھا خود اس کا اپنا ہر اک درد اس پہ ہنستا تھا میں آج کیوں تہ داماں بھی جل نہیں سکتا مرا ہی شعلہ ہواؤں پہ کل لپکتا تھا زمانے بھر کی اداؤں کو سہہ رہا ہوں آج کبھی میں اپنی اداؤں سے بھی بگڑتا تھا وہ میری شکل سے بیزار ہو رہا ہے آج جو شخص کل مری آواز کو ...