توقیر تقی کی غزل

    یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے

    یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے دل جو اس وقت مرے ہات سے نکلا ہوا ہے مڑ کے دیکھے بھی تو پتھر نہیں ہوتا کوئی جانے کیا شہر طلسمات سے نکلا ہوا ہے رات یہ کون سا مہمان مرے گھر آیا سارا گھر حلقۂ آفات سے نکلا ہوا ہے حجرۂ ہجر میں بیٹھا ہے جو مجذوب صفت عرصۂ شور مناجات سے نکلا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی

    کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی روشنی پہلے نہ تھی دل کی فضا میں ایسی اور پھر اس کے تعاقب میں ہوئی عمر تمام ایک تصویر اڑی تیز ہوا میں ایسی جیسے ویران حویلی میں ہوں خاموش چراغ اب گزرتی ہیں ترے شہر میں شامیں ایسی آنکھ مصروف ہے زنبیل ہنر بھرنے میں کس نے رکھی ہے کشش ارض و سما میں ...

    مزید پڑھیے

    کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا

    کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا میں شاخ عصر پہ بیٹھا ہوا پرندہ تھا بدن میں دل تھا معلق خلا میں نظریں تھیں مگر کہیں کہیں سینے میں درد زندہ تھا پھر ایک رات مجھی پر جھپٹ پڑا مرا ضبط جسے میں پال رہا تھا کوئی درندہ تھا خوشی نے ہاتھ بڑھایا تھا میری جانب بھی مگر وہاں جہاں ہر شخص ...

    مزید پڑھیے

    موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے

    موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے دریا کے سارے رنگ مری تشنگی میں آئے پھر ایک روز آن ملا ابر ہم مزاج مٹی نمو پذیر ہوئی تازگی میں آئے دامن بچا رہے تھے کہ چہرہ بھی جل گیا کس آگ سے گزر کے تری روشنی میں آئے یہ میں ہوں میرے خواب یہ شمشیر بے نیام اب تیرا اختیار ہے جو تیرے جی میں آئے اک ...

    مزید پڑھیے

    صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی

    صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی غم کی حدت سے پگھلتا نہیں تو بھی میں بھی اب زمانے میں محبت ہے تماشے کی طرح اس تماشے سے بہلتا نہیں تو بھی میں بھی ان سلگتی ہوئی سانسوں کو نہیں دیکھتے لوگ اور سمجھتے ہیں کہ جلتا نہیں تو بھی میں بھی اپنا نقصان برابر کا ہوا آندھی میں اب کسی شاخ پہ ...

    مزید پڑھیے

    خاک ہوتی ہوئی ہستی سے اٹھا

    خاک ہوتی ہوئی ہستی سے اٹھا عشق کا بوجھ بھی مٹی سے اٹھا ہجر تھا بار امانت کی طرح سو یہ غم آخری ہچکی سے اٹھا لو ترے بعد بڑھی اشکوں کی شعلۂ عشق بھی پانی سے اٹھا دل نے آباد کیا عشق آباد خاک ہو کر اسی بستی سے اٹھا دل اسی درد کی زلفوں کا اسیر ہائے وہ درد جو پسلی سے اٹھا یا مجھے قید ...

    مزید پڑھیے

    درد جب سے دل نشیں ہے عشق ہے

    درد جب سے دل نشیں ہے عشق ہے اس مکاں میں کچھ نہیں ہے عشق ہے دیکھ دشت یاد کا اعجاز دیکھ میں کہیں ہوں تو کہیں ہے عشق ہے تھک کے بیٹھا ہوں جو کنج ذات میں مہرباں کوئی نہیں ہے عشق ہے جو ازل سے ہجرتی ہیں اشک ہیں جو ان اشکوں میں مکیں ہے عشق ہے اے سراب جبر و استبداد سن یہ جو پیاسوں کا یقیں ...

    مزید پڑھیے

    روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں

    روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں اشک بچوں کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں سبز پیڑوں کو پتہ تک نہیں چلتا شاید زرد پتے بھرے منظر سے نکل جاتے ہیں اس گزر گاہ محبت میں کہاں آ گیا میں دوست چپ چاپ برابر سے نکل جاتے ہیں تم تراشے ہوئے بت ہو کسی محراب کے بیچ ہم زوائد ہیں جو پتھر سے نکل جاتے ...

    مزید پڑھیے

    بدن میں روح کی ترسیل کرنے والے لوگ

    بدن میں روح کی ترسیل کرنے والے لوگ بدل گئے مجھے تبدیل کرنے والے لوگ ابد تلک کے مناظر سمیٹ لیتے ہیں ذرا سی آنکھ کو زنبیل کرنے والے لوگ تمہی بتاؤ تمہیں چھوڑ کر کدھر جائیں تمہاری بات کی تعمیل کرنے والے لوگ کسے بتائیں کہ شاخ صلیب کون سی ہے یہ پات پات کو انجیل کرنے والے لوگ زمیں ...

    مزید پڑھیے

    لفظ کی قید سے رہا ہو جا

    لفظ کی قید سے رہا ہو جا آ مری آنکھ سے ادا ہو جا پھینک دے خشک پھول یادوں کے ضد نہ کر تو بھی بے وفا ہو جا خشک پیڑوں کو کٹنا پڑتا ہے اپنے ہی اشک پی ہرا ہو جا چھیڑ اس حبس میں مہکتی غزل اور در کھولتی ہوا ہو جا سنگ برسا رہے ہیں شہر کے لوگ تو بھی یوں ہاتھ اٹھا دعا ہو جا خود کو پہچان ادھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2