آج اس وقت وہ جب یاد آیا
آج اس وقت وہ جب یاد آیا ''دل کے دکھنے کا سبب یاد آیا'' یاد پڑتا ہی نہیں ہے مجھ کو کب میں بھولا اسے کب یاد آیا جن کی تعبیر سے آنکھیں نم ہیں پھر وہی خواب طرب یاد آیا آج یہ رات کٹے گی کیوں کر آج پھر وہ بے سبب یاد آیا
آج اس وقت وہ جب یاد آیا ''دل کے دکھنے کا سبب یاد آیا'' یاد پڑتا ہی نہیں ہے مجھ کو کب میں بھولا اسے کب یاد آیا جن کی تعبیر سے آنکھیں نم ہیں پھر وہی خواب طرب یاد آیا آج یہ رات کٹے گی کیوں کر آج پھر وہ بے سبب یاد آیا
نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے پرانی یاد تازہ ہو گئی ہے ہے مجھ کو اعتراف جرم الفت خطا یہ بے ارادہ ہو گئی ہے چلے آؤ ہجوم شوق لے کر رہ دل اب کشادہ ہو گئی ہے گماں ہونے لگا ہے ہر یقیں پر تری ہر بات وعدہ ہو گئی ہے ملے ہو جب بھی تنہائی میں درویشؔ کوئی تقریب سادہ ہو گئی ہے
اچھے لگو گے اور بھی اتنا کیا کرو آنکھوں کو میری اپنے لیے آئنہ کرو وعدے وفا کیے نہ کبھی تم نے جان جاں دل پھر بھی چاہتا ہے کہ وعدہ نیا کرو رہ کر تمہارے پاس بھی رہتا ہوں میں کہاں مل جاؤں پھر سے تم کو بس اتنی دعا کرو یہ دور اشتہار ہے گر کچھ نہ کر سکو خود اپنے منہ سے تم میاں مٹھو بنا ...
تو کہاں ہے مجھے او خواب دکھانے والے آ کہ دکھلاؤں تجھے میں ترے وعدوں کی کتاب یاد ہیں تجھ کو وہ مہکے ہوئے رنگین خطوط کس قدر پیار سے لاتی تھیں نصابوں کی کتاب اب کوئی خواب میں دیکھوں کہاں فرصت ہے مجھے میری بے خواب نگاہوں میں ہے یادوں کی کتاب یہ تو ممکن ہے بیاں ہجر کی روداد کروں ہے ...
میرا غم ساری کائنات کا غم میں نہیں جانتا نجات کا غم جن کی خاطر یہ عمر گزری ہے ان کو ہوتا ہے بات بات کا غم میں تو ہارا ہوں جیت کر تم کو کیا مٹے گا کبھی یہ مات کا غم اب تو ہوں میں مشین کا پرزہ ہے کہاں مجھ کو اپنی ذات کا غم خواہشوں کے غلام ہیں ہم سب پھر بھی ہم کو ہے خواہشات کا غم