غم کی دیوار کو میں زیر و زبر کر نہ سکا
غم کی دیوار کو میں زیر و زبر کر نہ سکا اک یہی معرکہ ایسا تھا جو سر کر نہ سکا دل وہ آزاد پرندہ ہے کہ جس کو میں نے قید کرنا تو بہت چاہا مگر کر نہ سکا دور اتنی بھی نہ تھی منزل مقصود مگر یوں پڑے پاؤں میں چھالے کہ سفر کر نہ سکا زندگی میری کٹی ایک سزا کے مانند چین سے دنیا میں پل بھر بھی ...