Tariq Jami

طارق جامی

طارق جامی کی غزل

    اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے

    اس کے بدن کا لمس ابھی انگلیوں میں ہے خوشبو وہ چاندنی کی مرے ذائقوں میں ہے میں سوچ کے بھنور میں تھا جس شخص کے لیے وہ خود بھی کچھ دنوں سے بڑی الجھنوں میں ہے اس کا وجود خامشی کا اشتہار ہے لگتا ہے ایک عمر سے وہ مقبروں میں ہے میں آسماں پہ نقش نہیں ہوں مگر سنو اب بھی مری شبیہ کئی ...

    مزید پڑھیے

    تیز لہجے کی انی پر نہ اٹھا لیں یہ کہیں

    تیز لہجے کی انی پر نہ اٹھا لیں یہ کہیں بچے نادان ہیں پتھر نہ اٹھا لیں یہ کہیں جن جزیروں کو یہ جاتے ہیں قناعت کر لو! سوچتے رہنے میں لنگر نہ اٹھا لیں یہ کہیں اعتماد ان پہ کرو خدشہ ہے یہ بھی ورنہ دست ساحل سے سمندر نہ اٹھا لیں یہ کہیں ان کے ہاتھوں کی طنابیں ہیں زمیں پر لپٹی شہر کی ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبا ہوں تو کس شخص کا چہرہ نہیں اترا

    ڈوبا ہوں تو کس شخص کا چہرہ نہیں اترا میں درد کے قلزم میں بھی تنہا نہیں اترا زنجیر نفس لکھتی رہی درد کی آیات اک پل کو مگر سکھ کا صحیفہ نہیں اترا انسان معلق ہیں خلاؤں کے بھنور میں اشجار سے لگتا ہے کہ دریا نہیں اترا سنتے ہیں کہ اس پیڑ سے ٹھنڈک ہی ملے گی شاخوں کے دریچوں سے تو جھونکا ...

    مزید پڑھیے

    سرسبز تھے حروف پہ لہجے میں حبس تھا

    سرسبز تھے حروف پہ لہجے میں حبس تھا کیسے عجب مزاج کا مالک وہ شخص تھا پھر دوسرے ہی دن تھا عجب اس شجر کا حال سبزے کی ان منڈیروں پہ پت جھڑ کا رقص تھا تجزیہ کرتا ہوں تو ندامت ہی ہوتی ہے در اصل میرے اپنے روئیے میں نقص تھا گو وہ رہا سدا سے مرا منحرف مگر اس کی ہر ایک طرز پہ میرا ہی عکس ...

    مزید پڑھیے

    میں بام و در پہ جو اب سائیں سائیں لکھتا ہوں

    میں بام و در پہ جو اب سائیں سائیں لکھتا ہوں تمام شہر کی سڑکوں کی رائیں لکھتا ہوں طویل گلیوں میں خاموشیاں اگی ہیں مگر ہر اک دریچے پہ جا کر صدائیں لکھتا ہوں سفید دھوپ کے تودے ہی جن پہ گرتے ہیں انہی اداس گھروں کی کتھائیں میں لکھتا ہوں ہوا کے دوش پہ رقصاں نحیف پتوں پر بدلتے موسموں ...

    مزید پڑھیے