طارق بٹ کی غزل

    ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے

    ہے کس کا انتظار کھلا گھر کا در بھی ہے اور جلتا اک چراغ سر رہگزر بھی ہے ہر لمحہ گھر کو لوٹ کے جانے کا بھی خیال ہر لمحہ اس خیال سے دل کو حذر بھی ہے تنہائیاں پکارتی رہتی ہیں آؤ آؤ اے بیکسی بتا کہیں ان سے مفر بھی ہے کس طرح کاٹی کیسے گزاری تمام عمر وہ مل گیا تو ایسے سوالوں کا ڈر بھی ...

    مزید پڑھیے

    بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا

    بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا اب لوٹ کے جائیں گے تو گھر کیسا لگے گا ہنگامۂ ہستی سے نمٹ کر جو چلیں گے وہ نیند کا خاموش نگر کیسا لگے گا اس نے تو بلایا ہے مگر سوچ رہا ہوں محفل میں کوئی خاک بسر کیسا لگے گا اندھے ہیں جو دنیا کی چکا چوند سے ان کو سورج کا سوا نیزے پہ سر کیسا لگے ...

    مزید پڑھیے

    نظر کا نشہ بدن کا خمار ٹوٹ گیا

    نظر کا نشہ بدن کا خمار ٹوٹ گیا کہ اب وہ آئینہ اعتبار ٹوٹ گیا بتائیں کیا تمہیں اب لمحۂ قرار کی بات ذرا سی دیر کو چمکا شرار ٹوٹ گیا کوئی خیال ہے سائے کی طرح ساتھ مرے اکیلے پن کا بھی میرے حصار ٹوٹ گیا شکست کھائی نہ میں نے فریب دنیا سے دل اس نبرد میں گو بار بار ٹوٹ گیا اٹھو کہ اور ...

    مزید پڑھیے

    وہی آہٹیں در و بام پر وہی رت جگوں کے عذاب ہیں

    وہی آہٹیں در و بام پر وہی رت جگوں کے عذاب ہیں وہی ادھ بجھی مری نیند ہے وہی ادھ جلے مرے خواب ہیں مرے سامنے یہ جو خواہشوں کی ہے دھند حد نگاہ تک پرے اس کے جانے حقیقتیں کہ حقیقتوں کے سراب ہیں مری دسترس میں کبھی تو ہوں جو ہیں گھڑیاں کیف و نشاط کی ہے یہ کیا کہ آئیں ادھر کبھی تو لگے کہ پا ...

    مزید پڑھیے

    اب نئے رخ سے حقائق کو الٹ کر دیکھو

    اب نئے رخ سے حقائق کو الٹ کر دیکھو جن پہ چلتے رہے ان راہوں سے کٹ کر دیکھو ایک آواز بلاتی ہے پلٹ کر دیکھو دور تک کوئی نہیں کتنا بھی ہٹ کر دیکھو یہ جو آوازیں ہیں پتھر کا بنا دیتی ہیں گھر سے نکلے ہو تو پیچھے نہ پلٹ کر دیکھو دل میں چنگاری کسی دکھ کی دبی ہو شاید دیکھو اس راکھ کی پرتوں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دور تک تو اس کی صدا لے گئی مجھے

    کچھ دور تک تو اس کی صدا لے گئی مجھے پھر میرے من کی موج اڑا لے گئی مجھے پہرہ لگا ہی رہ گیا الفت میں ہجر کا آنچل میں یاد یار چھپا لے گئی مجھے منزل ہی تھی نظر میں نہ رستے کا ہوش تھا اس در تلک یہ کس کی دعا لے گئی مجھے کس میں تھا حوصلہ کہ گزارے مگر حیات باتوں میں اپنے ساتھ لگا لے گئی ...

    مزید پڑھیے

    بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے

    بجھے تو دل بھی تھے پر اب دماغ بجھنے لگے ہوا ہے ایسی کہ سارے چراغ بجھنے لگے یہ کیسی پیاس ہے اے اہل درد کچھ تو کہو کہ تشنگی نہ بجھی اور ایاغ بجھنے لگے یہیں کہیں سے تو گزرا تھا کاروان مراد ہوائے دشت ٹھہر جا سراغ بجھنے لگے ابھی تو دل میں فروزاں تھے یاد گل کے چراغ ابھی سے کیوں مرے ...

    مزید پڑھیے