Tameezuddin Tameez Dehlvi

تمیزالدین تمیز دہلوی

  • 1929

تمیزالدین تمیز دہلوی کی غزل

    ہم نے مانا کہ تغافل تیری عادت ہے ضرور

    ہم نے مانا کہ تغافل تیری عادت ہے ضرور تیری افتاد میں شوخی و شرارت ہے ضرور یوں تو اس نے کیا اظہار ندامت ہے ضرور ایسا لگتا ہے کوئی اس میں شرارت ہے ضرور غیر سے سن کے مرا حال تأسف سے کہا جو یہ سچ ہے تو بری چیز محبت ہے ضرور واقعہ یہ ہے کہ انسان ہے مجبور محض سانحہ یہ ہے کہ مختار کہاوت ...

    مزید پڑھیے

    عہد پیری نے ہمیں رنگ دکھائے کیا کیا

    عہد پیری نے ہمیں رنگ دکھائے کیا کیا سر پہ ہو شام تو بڑھ جاتے ہیں سائے کیا کیا ٹھوکریں لگنے لگیں ضعف بصارت کے سبب دیکھیے ضعف سماعت بھی دکھائے کیا کیا ترک الفت کی کبھی اور کبھی ترک مے کی اب تو احباب بھی دینے لگے رائے کیا کیا وائے نادانئ دل اس نے محبت کر کے رنج و غم مول لئے بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا

    سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا دکھ سہا نہیں جاتا یار کی جدائی کا جب ذرا مہک آئی شاخ میں لچک آئی باغباں کو دھیان آیا باغ کی صفائی کا فربہ تھا توانا تھا تیرا جانا مانا تھا جس پہ تو ہوا شیدا لونڈا ہے قصائی کا سر پہ پیر رکھتا ہے مجھ سے بیر رکھتا ہے میں نے کب کیا دعویٰ تجھ سے آشنائی ...

    مزید پڑھیے

    وصل‌ و فرقت عذاب ہیں دونوں

    وصل‌ و فرقت عذاب ہیں دونوں باعث اضطراب ہیں دونوں کفر و ایماں ثواب ہیں دونوں تجھ سے ہی فیضیاب ہیں دونوں حسن میں آپ عشق میں احقر آپ اپنا جواب ہیں دونوں میں سر دار وہ پس چلمن کس قدر بے حجاب ہیں دونوں حسرت دید و نامرادئی شوق اک مکمل عذاب ہیں دونوں آپ کا ظلم میرا صبر و شکیب واقعی ...

    مزید پڑھیے

    انتظار کی حد تک انتظار کرنا تھا

    انتظار کی حد تک انتظار کرنا تھا اعتبار کی حد تک اعتبار کرنا تھا حال دل تو کہنا تھا مختصر مگر قاصد اختصار کی حد تک اختصار کرنا تھا خواب ہو کہ بیداری آہ و نالہ و زاری اختیار کی حد تک اختیار کرنا تھا اس نے حسب آسائش کی عدو کو فہمائش خاکسار کی حد تک خاکسار کرنا تھا نعش بھی مری اس ...

    مزید پڑھیے